سقراط کی موت کی کہانی۔
.
.
میں سقراط کا دوست کرائٹو ہوں اور داستان کا باقی حصہ بیان کرتا ہوں ۔
ہم اس کے پاس روزانہ جاتے تھے اور ہم نے اس میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی۔ اگرچہ بیڑیاں اس کے پیروں کو ضرور تکلیف دیتی ہوں گی۔ پھر وہ سورج کی روشنی سے دور رہنے کا عادی نہیں تھا۔ ان حالات میں جیلر اس سے جتنی مہربانی کا سلوک کر سکتا تھا ۔ اس سے دریغ نہیں کیا گیا اور آخر میں تو اس کا جو رویہ سقراط کے ساتھ میں نے دیکھا اس سے میں یہ اندازہ کرتا ہوں کہ وہ بھی اس سے محبت کرنے لگا تھا۔
میں خود بھی جیلر سے دوستی کرنے کے حق میں تھا۔ میرا خیال تھا کہ اس سے فائدہ پہنچ سکتا ہے اور پہنچ ہی جاتا لیکن خیر سنئے۔
جیسا کہ میں نے کہا! انتظار سے سقراط میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوا۔ اس زمانہ میں موت کے متعلق اس نے ضرور زیادہ سوچنا شروع کر دیا تھا۔ اس سے پہلے ہمیشہ وہ زندگی کے متعلق سوچا کرتا تھا۔ میں نے سقراط کے سوا کسی شخص میں زندگی اس طرح موجزن نہیں دیکھی لیکن اس وقت اس کے سامنے ایک بالکل دوسرا ہی مسئلہ تھا اور وہ اسے بالکل اپنے طریقے کے مطابق حل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ سقراط کے ہاتھ میں کوئی چیز مر نہیں سکتی تھی ۔ یہاں تک کہ موت بھی ۔۔۔۔ وہ مردہ نہیں ہو سکتی تھی ۔ زندگی کے اس آخری مہینہ میں ہم سب آخر وقت تک اس کے سہارے زندہ رہے۔ ہمیں سہارا دینے کے لئے واقعی اس کے باطن میں زندگی کا موجزن ہونا ضروری تھا۔
ادھر ہم پر کیا گزر رہی تھی اس کا بیان کرنا مشکل ہے۔ مقدمہ کے دن اس نے گویا، ہماری باطنی عظمتوں کو اجاگر کر دیا تھا۔ اس دن ہم تیار تھے کہ سقراط کو مرنا ہے تو چلو ، یوں ہی سہی۔ لیکن اس کی شخصیت اتنی عظیم اور جلیل تھی کہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ وہ ہماری خاطر اپنے کو ذلیل کرے۔ لیکن جب وقت نکل جاتا ہے تو لوگ باتیں کرتے رہتے ہیں اور انسان پریشان ہو جاتا ہے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے تھا۔ بہر حال زندگی زندگی ہے اور موت موت ہے، پھر ہم سوچتے ہیں کہ شاید ہم لوگوں نے حماقت سے کام لیا اور شاید سقراط بھی احمق ہی تھا۔ دنیا کے نزدیک تو وہ یقیناً احمق تھا اور اس دنیا میں پھر دنیا کے لوگوں کے سوا اور اہمیت کس چیز کو ہے۔
اس کے بعد ہمارا دوست سمیئیسں، تھبیز سے ایک بڑی رقم لے کر واپس آیا۔ اس کا دوست سیپیز حسب معمول اس کے ساتھ تھا۔ وہ کہتا تھا کہ اگر ضرورت ہو تو مزید رقم کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح اور بہت سے لوگ بھی مدد کرنے کو تیار تھے۔ منصوبہ یہ تھا کہ جیلر اور پہرہ داروں کو رشوت دے کر سقراط کو اس کے ہوا خواہوں کے پاس تھیسلی بھیج دیا جائے۔
اگر وہ اپنے بچوں کو ایتھنز میں چھوڑ جانا چاہتا ہو تو ہم اس کی دیکھ بھال کر لیں گے۔ میرا اپنا خیال یہ تھا کہ وہ ان کو تمام زندگی کے لئے ایتھنز کی شہرت سے محروم کرنا پسند نہیں کرے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اس منصوبے کے متعلق زیادہ پرامید نہیں تھا۔
ہم جیلر کو رشوت بھی دے سکتے تھے ۔ بھیس بدلنا بھی مشکل نہیں تھا اور میرے پاس ایک بھروسے کا آدمی تھا۔ جو خبروں کے ساتھ جا سکتا تھا لیکن ہر بات کا انحصار تو سقراط کی رضا مندی پر تھا۔ میں اس کا اس وقت سے دوست تھا جب سمیئیس اور سینیز دونوں دودھ پیتے بچے تھے۔ میں سقراط کو بخوبی جانتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ وہ موت سے بالکل خائف نہ تھا اور مرنے پر قطعی شرمندہ بھی نہ تھا۔ اب وہ اسے ایک ضروری مہم سمجھتا تھا اور اپنی راہ پر گامزن رہے گا۔ بھاگنے کے لئے وہ صرف اس صورت میں تیار ہو گا جب ہم یہ ثابت کر دیں کہ بھاگنا ہی اچھا تھا یا حق تھا۔
ان دوستوں نے اس موضوع پر اس سے باتیں کرنے کے لئے میرا انتخاب کیا۔ اگر سمیئیس راضی ہوتا تو حق اسی کا تھا اور دوستوں سے ہر شخص بات کرنے کے معاملے میں مجھ سے بہتر تھا لیکن انہوں نے مجھے چنا اور مجھے اس ذمہ داری کو قبول کرنے کے لئے زیادہ دیر تک سوچنا نہیں پڑا۔ اس رات اس متبرک جہاز کے کچھ آدمی راس سونیم کے بری راستے سے ایتھنز پہنچ گئے۔ انہوں نے بتایا کہ جہاز راس سے گزرنے کے لئے صرف ہوا کے ٹھہرنے کا انتظار کر رہا ہے۔ وہ کل تک آجائے گا اور اس طرح سقراط کو پرسوں مرنا ہوگا۔
جیسا میں کہہ چکا ہوں، جیلر میرا دوست تھا۔ اس نے دوسرے دن صبح ہونے سے پہلے ہی مجھے اندر جانے کی اجازت دے دی۔ اسے یہ تو بتانا ہی پڑا کہ آخر ہمارا مقصد کیا ہے لیکن وضاحت سے نہیں کی گئی۔ بہرحال وہ مجھے سقراط کے کمرے میں تنہا چھوڑ کر چلا گیا۔ ابھی صبح نہیں ہوئی تھی۔ سقراط سو رہا تھا۔
میں اس کے پاس بیٹھ گیا اور اس کو سوتے دیکھتا رہا۔ وہ بالکل ساکت لیٹا ہوا تھا۔ پھر وہ خود بخود اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اٹھتے ہی اس نے مجھ سے کئی سوال کر ڈالے تم کیوں آئے ہو؟ اس وقت کیا بجا ہے؟ جیلر نے تمہیں اندر کیسے آنے دیا؟ تم نے آتے ہی مجھے جگا کیوں نہیں دیا؟ سب سے پہلے میں نے اسے جہاز کے آنے کی خبر سنا دی۔ اسے یہ خبر سنانے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ ڈر تو مجھے دوسری قسم کے سوالوں کا تھا۔

اس نے مجھے ایک خواب سنایا جو ابھی بیدار ہونے سے پہلے وہ دیکھ رہا تھا۔ ایک سفید پوش عورت اس سے وہی الفاظ کہہ رہی تھی۔ جو ایکیلیز نے اس وقت کہے تھے جب وہ ٹرائے سے بھاگنے کے متعلق سوچ رہا تھا۔ اس عورت نے اس سے کہا کہ تم تیسرے دن گھر پہنچو گے اور اس کی تعبیر اس نے یہ نکالی کہ وہ کل نہیں پرسوں مرے گا۔ اس کی بات سے صاف ظاہر ہو گیا تھا کہ اس کے دماغ میں کیا خیالات چکر لگا رہے تھے۔
اس کے بعد میں نے بات شروع کی۔ میں نے جو منصوبہ بنایا تھا جلدی جلدی بیان کر دیا۔ سب سے پہلے تو میں نے کہا کہ تم اپنے دوستوں کی شہرت اور وقار کو ٹھیس پہنچا رہے ہو۔ میں نے اس سے کہا کہ لوگ یا تو ہم لوگوں کو بزدل خیال کریں گے یا کہیں گے کہ ہمیں تم سے اتنی محبت نہیں تھی کہ ہم تمہیں رہا کرانے کے لئے کچھ رقم صرف کرتے۔ یہ بات میرے ذہن میں تھی کہ شاید وہ اس لئے انکار کر دے کہ ہمیں خطرے سے دوچار ہونا پڑے گا۔ میں نے کہا ہمیں کوئی خطرہ نہیں اور اگر ہے تو خطرہ مول لینا ہی ہمارا حق ہے۔
میں نے سیمئیس اور ان دوسرے دوستوں کا ذکر کیا جو اس کی مدد کرنا چاہتے تھے۔ میں نے کہا اگر ہم پر کوئی مصیبت آئی تو ہم رشوت دے کر اس سے چھٹکارا حاصل کر لیں گے اور ہمارے دوست جو تھیسلی میں ہیں۔ تمہارے آرام کا خیال رکھیں گے اور تمہاری حفاظت کریں گے۔ آخرکار میں نے اس سے اس قسم کا مباحثہ شروع کر دیا جس کا وہ منتظر تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ اس طرح ہتھیار ڈال دینا صحیح نہیں کہ غلط کار لوگوں کو فتح ہو اور تمہارے بچے یتیم ہو جائیں۔
میں نے کہا کہ لوگ اس مقدمہ کے متعلق طرح طرح کی باتیں کریں گے۔ اس مقدمہ کو کبھی عدالت میں پیش ہونا نہیں چاہیے تھا۔“ اس کا وہ فیصلہ نہیں ہونا چاہیے تھا، جو ہوا۔ ” سقراط کے دوست سب بزدل اور کمزور تھے کہ اس بارے میں کچھ نہ کر سکے۔ ” میں نے کہا کہ اب سوچنے کا وقت نہیں رہا۔ ہمیں جو کچھ کرنا ہے آج ہی رات کو کرنا ہے۔“
جب میں جوش میں ہوتا ہوں تو الفاظ میرے منہ سے گرتے پڑتے نکلتے ہیں لیکن وہ نہ تو ہنسا اور نہ اس نے مجھے ٹوکا۔ جب میں بات کر چکا تو اس نے مجھ سے کہا کہ تمہارا جوش بہت ہی بیش قیمت ہے۔ بشرطیکہ اس کا رخ صحیح ہو۔ اس نے مجھے سمجھایا کہ ہمیں کسی معاملہ کے اچھے اور برے پہلوؤں کو ایک ساتھ دیکھنا چاہیے۔ جب اس نے یہ کہا تو میرا دم گھٹنے لگا۔ کیونکہ وقت کی کمی کی بنا پر اس بات کا خطرہ تھا کہ کہیں ہم غلط فیصلہ نہ کر لیں۔ میں جانتا تھا کہ وہ یہی کہے گا اور سچ پوچھو تو اس وقت میری خواہش بھی یہی تھی۔
اس کے بعد اس نے کسی فیصلہ تک پہنچنے کے لئے با قاعدہ گفتگو شروع کی۔ اس نے وہ اصول مجھے یاد دلائے۔ جن پر اس سے پہلے کئی بار ہم متفق ہو چکے تھے۔ پھر اس نے ایک ایک کر کے سوال کے مختلف پہلوؤں پر بحث کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے اس نے اس بات کا جواب دیا کہ لوگ کیا کہیں گے۔ مجھے اس نے یہ کہہ کر اپنا ہم خیال بنا لیا کہ ہم رائے عامہ کو یہ منصب نہیں بخش سکتے۔ کہ وہ راستی اور ناراستی کے درمیان فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔ اس طرح باطنی اور روحانی فساد پیدا ہو سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی کھلاڑی اپنے تربیت دینے والے کے بجائے عام لوگوں کی رائے پر عمل کر کے اپنی جسمانی حالت بگاڑ سکتا ہے۔
میری دوسری بات کا جواب دیتے ہوئے اس نے کہا کہ زندہ رہنا اتنا اہم نہیں ہے، جتنا صحیح انداز سے زندہ رہنا۔ اس بات میں بھی مجھے اس سے اتفاق کرنا پڑا۔
اس نے تیسری بات یہ کہی کہ بدی کا جواب بدی نہیں ہے۔ بہت دن ہوئے جب اس نے مجھ سے پہلی بار کہا تھا کہ نیک آدمی سے بدی کا سرزد ہونا ممکن نہیں ، تو میں نے اس خیال کو مضحکہ خیز تصور کیا تھا لیکن اب میں دیکھ رہا تھا کہ اس کا خیال ٹھیک تھا۔ مجھے اس معاملے میں بھی اس کا ہم خیال ہونا پڑا اور وہ برابر اس بات کا اطمینان کر رہا تھا کہ میں واقعی اس سے متفق ہو گیا ہوں کہ نہیں۔
اس نے کہا میں جانتا ہوں۔ ان باتوں پر بہت کم لوگ یقین رکھتے ہیں اور یقین رکھنے والوں کی تعداد ہمیشہ کم رہے گی ۔ وہ لوگ جو یقین رکھتے ہیں اور وہ جو لوگ یقین نہیں رکھتے یہ دونوں کسی معاملے میں کبھی متفق نہ ہوں گے۔ مجھے اس بات کی بھی تائید کرنا پڑی۔
اس کے بعد اس نے بحث مباحثہ ترک کر دیا اور شہر کے قوانین کی باتیں کرنے لگا۔ میں اسی وقت سمجھ گیا کہ اپنے مقصد میں ناکام رہا ہوں اس نے مجھ سے کہا ”اگر میں بھاگ جاؤں تو یہ قوانین بہ زبان حال کہیں گے کہ ہم نے سقراط کے پیدا ہونے کے وقت سے لے کر مدت العمر اس کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دیا اور ادھر میری سنو تو جب میں جوان ہوا اور قوانین کو سمجھنے کے قابل ہو گیا تو میں نے انہیں قبول کر لیا اور ان کا پابند رہا اور ان سے بھاگ کر کسی ایسے شہر جانے کی کوشش نہیں کی۔ جس کے قوانین اس سے بہتر ہوتے۔ بتاؤ اب میں قوانین کیسے توڑ سکتا ہوں اور اگر میں ایسا کروں تو پھر آئندہ نیکی کے متعلق کیسے گفتگو کر سکوں گا ۔“
” میرے پیارے دوست کرائٹو ! قانون کی یہ آواز میرے کانوں میں گونج رہی ہے اور ان الفاظ کی آواز میں وہ موسیقی ہے کہ میرا دل کسی اور صدا کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ اگر تم ان قوانین کی مخالفت کرو گے تو تمہاری باتیں اکارت جائیں گی۔ اس کے بعد اگر تم کچھ کہنا چاہتے ہو تو کہو”۔
“سقراط مجھے کچھ نہیں کہنا ! میں نے جواب دیا اور یہ حقیقت تھی لیکن یہی بات دوسروں تک پہنچانا بڑا مشکل کام تھا۔“
جہاز آ گیا اور شام تک ہمیں اس کے آنے کی اطلاع ہو گئی تو دوسرے دن صبح ہم قید خانے جلدی ہی پہنچ گئے۔ پہلے تو چوبدار ہمیں اندر نہیں جانے دیتا تھا۔ اس نے کہا کہ جیل کے حکام سقراط کے کمرے میں ہیں۔ وہ اس کی زنجیریں کٹوا رہے ہیں اور دوسرے ضروری احکام دے رہے ہیں۔ جب وہ لوگ چلے گئے تو وہ ہمیں اندر لے گیا۔
سقراط بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ اس کی زنجیریں کٹ چکی تھیں۔ زن ٹیپی بچے کو لئے قریب ہی بیٹھی تھی۔ وہ تمام رات اس کے پاس رہی تھی۔ لیکن اب اس وقت یہ سوچ کر کہ یہ اس کا آخری دن ہے، وہ رونے لگی۔ سقراط نے مجھ سے کہا کہ میں اپنے کسی آدمی کے ساتھ اسے گھر بھجوا دوں۔
اب ہم اس کے پاس تنہا رہ گئے۔ وہ بستر پر بیٹھ گیا اور اپنی پنڈلیاں ہاتھوں سے ملنے لگا کہ سُن ہو گئی تھیں۔ ہم مختلف موضوعات پر باتیں کر رہے تھے۔ اس نے کہا کہ خواب میں اکثر مجھ سے کوئی کہا کرتا تھا کہ شعر کہو۔ نغمہ طرازی کرو۔ میں کچھ اشعار نظم کر رہا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ نغمے سے مراد غالباً فلسفہ ہے کیونکہ یہ نغمہ گری شاعری کی اعلیٰ ترین شکل ہے لیکن اس نے احتیاطاً اپالو کی تعریف میں ایک گیت لکھا تھا اور لقمان کی ایک آدھ کہانی کو نظم کر دیا تھا۔
اس کے بعد ”موت“ گفتگو کا موضوع بن گئی ۔ آخر اس کے معنی کیا ہیں اور اس کے بعد کیا ہوگا ؟ اگرچہ ہم لوگ بھی اس موضوع پر بات کرنا چاہتے تھے لیکن کچھ جھینپ رہے تھے۔ وہ ہم سب سے زیادہ عقل مند تھا۔ ہم سب ایک مشکل مسئلہ کا حل دریافت کرنا چاہتے تھے اور یہی ایک آخری موقع تھا۔
لیکن اسے کوئی جھجک نہیں تھی۔ اس کی فکر اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ موت اس کی یا کسی اور کی زندگی کے ختم ہو جانے سے عبارت نہیں ہے۔ اس کا خیال تھا کہ حالات کی بنا پر شاید اس کا فیصلہ غیر جانبدارانہ نہ ہو۔ اس لئے وہ اس مسئلہ پر بحث کرنا چاہتا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ جب ہم نے اس سے محض اس لئے اختلاف نہیں کیا تھا کہ وہ آزردہ ہو گا تو اس نے ہمیں یہ سمجھایا کہ ہمیں کسی کی خوشنودی سے زیادہ حق کا خیال کرنا چاہیے۔ اس نے کہا ” اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ میں صحیح کہہ رہا ہوں تو مجھ سے اتفاق کرو اور اگر ایسا نہیں ہے تو تم میرے خلاف دلیل پیش کرو۔ تم کو یہ دیکھنا چاہیے کہ میں اپنے ساتھ تم کو بھی دھوکا تو نہیں دے رہا ہوں اور شہد کی مکھی کی طرح تم میں اپنا ڈنک کو چھوڑ کر نہیں اڑ رہا ہوں ۔“
جو باتیں اس موقع پر ہوئیں ان کے متعلق میں اس سے زیادہ تمہیں نہیں بتا سکتا۔ یہ افلاطون کی قسمت میں لکھا تھا کہ وہ اس دن کی ساری گفتگو تفصیل سے قلم بند کرے۔ اگرچہ وہ اس دن اتنا بیمار تھا کہ بستر سے اٹھ کر آ بھی نہیں سکا۔ اس نے ہم سب کی باتیں سنیں اور میرا خیال ہے کہ بعد میں اس دن کی باتیں اس کے ذہن میں کروٹیں لیتی رہیں اور گویا اس کے افکار نشوونما پاتے رہے سقراط یہی چاہتا تھا کہ ہم سب کی کسی نہ کسی طرح نشوونما ہو۔
ممکن ہے وہ دن میری ذہنی نشوونما میں مددگار ثابت ہوا ہو لیکن مجھے جو چیز یاد ہے وہ میرا دوست ہے۔ اس کے دلائل نہیں۔ وہ بذات خود ایک بہترین دلیل تھا اور آخر وقت تک یہی کہتا رہا کہ موت اس کا خاتمہ نہیں کرے گی اور جب میں اس کے متعلق سوچتا ہوں تو میں یہی کہتا ہوں۔
مجھے یاد ہے کہ جب وہ راج ہنس کی باتیں کر رہا تھا تو کیسا نظر آتا تھا اسے دیکھ کر ہمیں راج ہنس کے آخری میٹھے نغمے کی یاد آئی، جو وہ اپنی موت سے پہلے گاتا ہے۔ بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ راج ہنس گانے کے ذریعہ دکھ کا اظہار کرتا ہے۔ حالانکہ دکھ میں پرندے گاتے نہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ راج ہنس وہ پرندہ ہے جو خصوصاً اپالو سے منسوب ہے اور سقراط بھی اپالو کا عبادت گزار تھا۔ وہ کہتا تھا کہ اپالو کے خدام پیشن گوئی کر سکتے ہیں۔موت سے پہلے انہیں دوسری دنیا کی اچھی چیزیں نظر آتی ہیں اور اس لئے وہ خوشی میں گاتے ہیں۔
آخر میں کچھ باتیں ایسی بھی ہوئیں جنہیں میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ وہ یہ بیان کر رہا تھا کہ شاید مرنے کے بعد مجھ سے اور تم سے دیوتا انصاف کریں گے اور ہماری روحیں پاک وصاف ہو جائیں گی۔ اس نے اس کی تفصیلات تو نہیں بتائیں لیکن یہ کہا کہ مناسب یہی ہے کہ اس بات کو مان لو۔ ہمت سے کام لو، اپنی روحوں کا خیال رکھو۔ انہیں ہم آہنگی، راستی، دلاوری، سخاوت اور صداقت کا لباس پہناؤ۔ جب میں نے اس سے پوچھا۔ “ہم تمہارے لئے کیا کریں؟“ اس نے جواب دیا۔ ” کوئی نئی بات نہیں۔ صرف اپنا خیال رکھو۔ بہت زیادہ الفاظ استعمال کرنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ اصل چیز یہ ہے کہ ہم زندگی کیسے گزارتے ہیں۔“
سب سے آخر میں نے پوچھا ” ہم تمہیں کیسے دفن کریں؟ اس سوال کے جواب میں اس نے جو کہا وہ مجھے پوری طرح یاد ہے۔
جس طرح تم چاہو لیکن سوال یہ ہے کہ تم مجھے پکڑ بھی پاؤ گے یا میں تمہاری گرفت سے نکل جاؤں گا۔ وہ ہنسا لیکن اس کی ہنسی میں نرمی اور شفقت تھی۔پھر دوسروں کی طرف دیکھ کر کہنے لگا کہ میں کرائٹو کو قائل نہیں کر سکتا کہ میں وہی سقراط ہوں جو ابھی باتیں کر رہا تھا اور دلائل پیش کر رہا تھا ۔اس کا خیال ہے کہ میں وہ مردہ جسم ہوں جس کو وہ ابھی تھوڑی دیر میں دیکھے گا اور اس لئے وہ مجھ سے پوچھ رہا ہے کہ ” ہم تمہیں کیسے دفن کریں۔“
میں یہاں کتنی دیر سے باتیں کر رہا ہوں اور یہ کہہ کر تم کو تسلی دے رہا ہوں اور خود کو بھی کہ زہر پینے کے بعد میں تمہارے پاس نہیں رہوں گا۔ میں ان لوگوں سے جا ملوں گا جن پر سعادت سایہ افگن ہے اور جو ایسی جگہ رہتے ہیں جہاں ابدی مسرت پائی جاتی ہے لیکن بظاہر میری اس تمام گفتگو کا کرائٹو پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس لئے میں چاہتا ہوں کہ تم میرے اور کرائٹو کے درمیان ضامن ہو جاؤ ۔ جس طرح وہ عدالت میں میرا ضامن ہوا تھا لیکن ضمانت کا رخ بدل دو۔
اس نے ضمانت دی تھی کہ میں ایتھنز میں ٹھہروں گا ۔ تم لوگ یہ ضمانت دو کہ مرنے کے بعد میں یہاں نہیں ٹھہروں گا بلکہ چلا جاؤں گا۔ تب کرائٹو کو اتنا دکھ نہیں ہو گا اور جب وہ میرے جسم کو جلتے یا دفن ہوتے دیکھے گا تو وہ یوں غم نہیں کرے گا گویا مجھ پر مصیبتیں گزر رہی ہیں اور میرے جنازے پر یہ نہیں کہے گا کہ یہ سقراط کا جنازہ ہے۔
پیارے کرائٹو ! جھوٹے الفاظ صرف آپس میں بے جوڑ ہی نہیں ہوتے بلکہ وہ روح میں بدی پیدا کرتے ہیں۔ ہمت رکھو اور یہ کہو کہ یہ میراجسم ہے جسے تم دفن کر رہے ہو اور اس کے ساتھ جو چاہو کرو اور جو مناسب سمجھو ادا کرو”
اس کے بعد وہ تھوڑی دیر کے لئے سب سے الگ ہو گیا اس نے مجھے اپنے پاس بلا لیا۔ پھر غسل کیا اور بچوں سے زن نیچی سے اور دوسری رشتہ دار عورتوں سے جو زن ٹیچی کے ساتھ آگئی تھیں، باتیں کرتا رہا۔ اس میں کچھ وقت
صرف ہوا جب ہم باہر کے کمرے میں دوستوں کے پاس واپس گئے تو شام ہو چکی تھی ۔ وہ ہم لوگوں کے ساتھ خاموش بیٹھا ہوا تھا کہ جیلر آ گیا۔ اس نے کہا کہ وقت آگیا ہے۔ پھر اس نے سقراط سے معافی مانگی۔ رونے لگا اور کہا کہ”
اب تک جتنے آدمی یہاں آئے ہیں تم ان سب سے زیادہ شریف، نرم دل اور اچھے ہو۔ سقراط نے اس کے ساتھ بڑی نرمی سے باتیں کیں۔
میں نے سقراط سے کہا کہ سورج ابھی پہاڑوں پر چمک رہا ہے۔ اس لئے ابھی زہر پینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ دراصل یہ میرا خوف تھا جو بول رہا تھا چونکہ اسے کوئی خوف نہیں تھا اس لئے اس نے مجھے زہر منگوانے کو کہا اور آدمی پیالہ لے کر آ گیا۔
کیا خیال ہے تمہارا میں دیوتا کی خاطر تھوڑا سا زہر زمین پر گرا دوں؟“ سقراط نے پوچھا اور آدمی نے جواب دیا ” نہیں۔“ اس نے کہا ” میں تمہاری بات کا مطلب سمجھتا ہوں لیکن مجھے دعا تو مانگنی چاہیے کہ میرا اس دنیا سے سفر سعادت کا سفر ہو۔ یہی میری دعا ہے دیوتا اسے منظور کریں۔“ اور اس نے پیالہ اٹھا کر پی لیا۔ اب میری قوت برداشت جواب دے چکی تھی۔ میں اٹھ کر کمرے ڈورس جو دن بھر روتا رہا تھا اس نے اتنے زور سے چیخ ماری کہ اگر سقراط ہم کو روک نہ لیتا تو ہم سب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتے۔
اس نے سختی سے کہا ” یہ تم لوگ کیا انوکھی بات کر رہے ہو؟ میں نے عورتوں کو اس لئے باہر بھیج دیا تھا تاکہ وہ پیغلطی نہ کریں۔ میں نے یہ سنا ہے کہ مرد کو خاموشی سے مرنا چاہیے۔ اپنے اوپر قابو رکھو اور صبر سے کام لو۔“
ہم سب نے شرمندہ ہو کر اپنے آنسو روک لئے اور احکام کے مطابق سقراط الہلتا رہا۔ اس کے بعد وہ کمبل اوڑھ کر بستر پر لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے چہرہ کھولا اور کہا: ( یہ اس کی آخری بات تھی) کر انٹو ہم پر واجب ہے کہ ایک مرغ شفا کے دیوتا کے نام پر قربان کریں۔ کیا تم یہ قربانی کر دو گے؟ دیکھنا بھولنا مت۔
میں نے دوسرے دن مرغ کی قربانی دے دی۔ شفا کا دیوتا سمجھ جائے گا کہ سقراط نے یہ قربانی دیتے وقت کس نیک مقصد کوملحوظ رکھا تھا۔ ہم نے سقراط کے جسم کو دفن کر دیا۔ میرا خیال ہے کہ سقراط وہاں بذات خود موجود نہیں تھا لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ جہاں بھی ہے اچھا ہے۔
ختم شد.
_______________________