سقراط کی تاریخ – Part 3

معذرت


.

ایتھنز کے لوگو! ” سقراط نے ابتداء کی اور تمام عدالت میں ایک کھلبلی سی مچ گئی۔ اس نے حسب معمول جیوری کے معزز ارکان کیوں نہیں کہا تھا۔ کیا  یہ شخص اس بات کو بھول گیا ہے کہ اس وقت وہ عدالت کے روبرو جواب دہی کے لئے کھڑا ہے۔

Socrates trial in court
Illustration

” ایتھنز کے لوگو! میں نہیں جانتا کہ جس وقت مجھ پر الزام لگانے والے تقریریں کر رہے تھے۔ اس وقت تم کیا محسوس کر رہے تھے۔ ان کی تقریریں بااثر تھیں۔ ان کی تقریریں سن کر میں تو تقریباً یہ بھول گیا تھا کہ میں کس طرح کا آدمی ہوں۔”

سقراط کے نزدیک ظاہر ہے کہ یہ سب مذاق تھا اور سقراط نے اس سے لطف اٹھایا۔ اس کے دوستوں نے اس سے پہلے اس کو کبھی اس قدر مطمئن نہیں دیکھا تھا۔

اس نے سامنے کی تقریرگاہ پر اینطوس، مائیلی توس اور لائیکون کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا ”پھر بھی حقیقت یہ ہے کہ سچ تو انہوں نے بالکل بولا ہی نہیں۔“

شاہ آرکن اپنی کرسی سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ منشی اور نقیب اپنی جگہوں پر تھے۔ وقت کا حساب رکھنے والوں نے پانی کی گھٹڑی چالو کر دی۔ ہر چیز باقاعدہ تھی۔ مقدمات کی کثرت کی بنا پر عدالت کو قریباً ہر روز ایک مقدمہ سننا پڑتا تھا اور ان لوگوں کا خیال تھا کہ یہ مقدمہ بھی دوسرے مقدموں کی طرح ہوگا۔ ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ سقراط کی سچائی کا طریقہ ہر چیز کو الٹ پلٹ کر دیتا ہے۔

پھر بھی سقراط کی تقریر میں بظاہر کوئی الٹ پلٹ کر دینے والی نہ تھی اگر سقراط نے اسے پہلے سے مرتب نہیں کیا تھا تو اس وقت دیوتا اسے بہت ہی حسین اور مناسب طریقہ سے ترتیب دے رہا تھا۔ اس کی تقریر کے الفاظ اتنے سادہ تھے کہ ایک بچہ اور دانا دونوں اسے آسانی سے سمجھ سکتے تھے۔

Socrates trial in court
Illustration

سقراط نے لوگوں سے کہا ” اگر میں اپنی صفائی ایسے الفاظ میں پیش کروں جو تم نے بازار میں یا ساہوکار کی دکان پر (جہاں تم میں سے اکثر لوگوں نے مجھے باتیں کرتے سنا ہے)  مجھ سے پہلے بھی سنے ہیں تو متعجب نہ ہونا اور نہ مجھے ٹوکنا۔ میری تقریر کرنے کے طریقے پر بھی دھیان نہ دینا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ طریقہ برا ہو اور ہو سکتا ہے کہ اچھا ہو۔ صرف ایک بات پر دھیان دینا کہ آیا جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ صحیح ہے یا نہیں۔ کیونکہ فیصلہ کرنے والے کی خوبی اس میں ہے کہ وہ اس پر دھیان دے کہ  سچ کیا ہے۔ جس طرح ایک مقرر کی خوبی یہ ہے کہ وہ سچ بولے۔

سقراط کو اپنی تقریر میں بہت کچھ کہنا تھا اور وقت بہت کم رہ گیا تھا۔باقاعدہ تھی۔ مقدمات کی کثرت کی بنا پر عدالت کو قریباً ہر روز ایک مقدمہ سنا پڑتا تھا اور ان لوگوں کا خیال تھا کہ یہ مقدمہ بھی دوسرے مقدموں کی طرح ہو گا۔ ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ سقراط کی سچائی کا طریقہ ہر چیز کو الٹ پلٹ کردیتا ہے۔

پھر بھی سقراط کی تقریر میں بظاہر کوئی الٹ پلٹ کر دینے والی نہ تھی۔ اگر سقراط نے اسے پہلے سے مرتب نہیں کیا تھا تو اس وقت دیوتا اسے بہت ہی حسین اور مناسب طریقہ سے ترتیب دے رہا تھا۔ اس کی تقریر کے الفاظ اتنے

سادہ تھے کہ ایک بچہ اور دانا دونوں اسے آسانی سے سمجھ سکتے تھے۔

سقراط نے لوگوں سے کہا ” اگر میں اپنی صفائی ایسے الفاظ میں پیش کروں جو تم نے بازار میں یا ساہوکار کی دکان پر (جہاں تم میں سے اکثر لوگوں نے مجھے باتیں کرتے سنا ہے مجھ سے پہلے بھی سنے ہیں تو متعجب نہ ہونا اور نہ مجھے ٹو کنا۔ میری تقریر کرنے کے طریقے پر بھی دھیان نہ دینا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ طریقہ برا ہو اور ہوسکتا ہے کہ اچھا ہو۔صرف ایک بات پر دھیان دینا کہ آیا جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ صحیح ہے یا نہیں۔ کیونکہ فیصلہ کرنے والے کی خوبی اس میں ہے کہ وہ اس پر دھیان دے کہ سچ کیا ہے۔ جس طرح ایک مقرر کی خوبی یہ ہے کہ وہ سچ بولے۔ سقراط کو اپنی تقریر میں بہت کچھ کہنا تھا اور وقت بہت کم رہ گیا تھا۔

Socrates trial in court

پہلے تو سقراط کو زمین ہموار کرنی تھی۔ اسے پرانے تعصبات کو جڑ سے اکھاڑنا تھا۔ مثال کے طور پر ارسٹو فینیز کے ڈرامے کا پرانا مذاق اور افواہیں، جن کی اگرچہ کوئی بنیاد نہیں تھی لیکن جو زیادہ خطرناک تھیں۔ اس عدالت میں کچھ لوگ تھے جن کا ابھی تک یہ خیال تھا کہ سقراط انکثا غورث کی طرح بے دین سائنس دان تھا۔

یہاں تک کہ مائیکی توس جو اس سے اچھی طرح واقف تھا وہ بھی اس پر دہریہ ہونے کا الزام لگانے کی کوشش کرتا تھا اور چاند اور سورج کے متعلق حیرت انگیز نظریوں کا حوالہ دیتا تھا۔ بہت سے لوگ سقراط کو سوفسطائی معلم سمجھتے تھے جو اپنے شاگردوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ جھوٹ کو سچ کر دکھائیں۔

” پھر اگر تم نہ سائنس دان ہو اور نہ سوفسطائی تو سقراط پھر تمہارا کام کیا ہے اور تم پر شک کیوں کیا جارہا ہے؟”

اس کے جواب میں اسے کریفن کے ہاتف غیبی والی پرانی کہانی دہرانا پڑی اور اس مقصد کا ذکر کرنا پڑا۔ جو اس کہانی سے وابستہ تھا۔ پھر ماہرین سے سوال جواب اور پھر ان دانشوروں کا غصہ جنہوں نے بحث کے بعد محسوس کیا تھا کہ وہ نادان ہیں۔ اصل مشکل یہ تھی کہ سچ سے اضطراب پیدا ہوتا تھا۔ یہی بات پرانے تعصبات اور مائیلی توس کے نئے الزمات کی تہہ میں پوشیدہ تھی۔ مائیلی توس ایک بیوقوف جاہل آدمی تھا۔ سقراط نے یہ بات ثابت کرنے کے لئے اس پر جرح کی لیکن اس کی بیوقوفی میں دوسرے آدمی بھی تو شریک تھے۔

” یہی وہ چیز ہے جو آخر میں مجھے تباہ کر دے گی۔ سقراط نے آہستگی سے کہا۔“ اگر کوئی مجھے تباہ کرے گا تو وہ مائیلی توس یا انیطوس نہ ہوگا بلکہ مجھے دنیا برباد کرے گی ۔ جو میرے متعلق برا کہتی ہے اور مجھے برا سمجھتی ہے ۔اسی دنیا نے پہلے بھی دوسرے نیک آدمیوں کو برباد کیا ہے اور میرا خیال ہے کہ آئندہ بھی کرتی رہے گی۔ اس بات کا کوئی خطرہ نہیں کہ یہ قصہ مجھی تک ختم ہو جائے گا ”

اس پر کچھ آوازیں بلند ہوئیں۔ ایک غضب ناک جیوری نے اپنے ساتھی سے کہا ” دیکھو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹ رہا ہے۔ یعنی اگر ہم پانچ سو ایک سب کے سب اسے مجرم قرار دیں اور وہ مجرم کی موت مرے، پھر بھی وہ نیک آدمی رہے گا کیوں ؟ یہی باتیں جمہوریت میں نوجوانوں کو سکھائی جائیں گی۔ میں جانتا ہوں کہ میری رائے کیا ہوگی۔”

یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ آوازیں سقراط نے سنی ہوں یا نہ سنی ہوں۔ اس نے اپنی تقریر جاری رکھی لیکن آواز بلند کر دی تاکہ ہجوم کے شور میں دب کر نہ رہ جائے۔

 ” کچھ لوگ شاید یہ کہیں۔ سقراط تمہیں شرم نہیں آتی۔ تم نے ایک ایسا کام کیا ہے جس نے تم کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔“

” اگر مجھ سے کوئی سوال کرے گا تو میں اس کو ایمان داری سے جواب دوں گا۔ میں اس سے کہوں گا دوست اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ ایک شخص جو کسی قابل ہے اسے ہر وقت یہی دیکھتے رہنا چاہیے کہ اس کے مرنے اور جینے کے امکانات کیا ہیں تو تم غلطی پر ہو۔ کیا تمہارا خیال ہے کہ ایکیلینز موت اور خطرات کی پرواہ کرتا تھا۔ نہیں۔ ایتھنز کے لوگو! سچائی کی روشنی میں دیکھو تو حقیقت یہ ہے اگر کوئی شخص اپنی بات پر قائم رہتا ہے خواہ اس لئے کہ خود اس نے طے کیا ہے کہ اپنی بات پر قائم رہنا ہی مناسب ہے اور خواہ کسی حاکم نے اسے اس امر پر مامور کیا ہے دونوں صورتوں میں میرے خیال کے مطابق اسے ڈٹا رہنا چاہیے اور اسے اپنی بات کے لئے ہر خطرے کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ اسے اس بات کی پرواہ زیادہ کرنی چاہیے کہ ندامت نہ حاصل ہو موت کی پروا نہیں کرنی چاہیے”۔

“ایتھنز کے لوگوا بحیثیت سپاہی کے، میں اسی مقام پر کھڑا رہا جہاں میرے افسروں نے مجھے کھڑا رہنے کا حکم دیا تھا۔ ان افسروں کو تم نے مجھ پر حاکم بنایا تھا۔ پوٹیڈیا، ایمفیپولیس اور ڈیلی ام کی لڑائیوں میں بھی دوسروں کی طرح اپنی جگہ پر ڈٹا رہا اور موت سے کھیلتا رہا۔ لیکن جو کام میں اس وقت انجام دے رہا ہوں اس پر دیوتا نے مجھے مامور کیا ہے۔ یہ میرا خیال اور میرا عقیدہ ہے۔ دیوتا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنا اور دوسرں کا جائزہ لوں اور یوں فلسفہ کے لئے اپنی زندگی وقف کر دوں ایتھنز کے لوگو! اگر میں موت یا کسی دوسری چیز کے ڈر سے اپنے مقام پر ڈٹا نہ رہوں تو میرا یہ فعل نہایت برا ہو گا۔ اگر میں ایسی حرکت کروں تو یہ بات بہت ہی بے جا ہو گی اور تم کو حق ہو گا کہ تم مجھ پر دیوتاؤں پر ایمان نہ لانے کا الزام لگاؤ۔”

Socrates trial in court

اس کے دوست جو اس سے محبت کرتے تھے۔ انہوں نے بھی سقراط کو اس رنگ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ سوچ رہے تھے وہ ٹھیک ہی تو کہتا تھا اور ہم اس کی باتیں نہیں سمجھتے تھے۔ وہ اپنی تمام عمر اسی کے لئے تیاری کرتا رہا۔ ہم اس کو جیسا جانتے تھے وہ تو اس سے بھی عظیم ثابت ہوا۔

یہ نظارہ دیدنی تھا۔ یہاں تک کہ اینطوس کو بھی اس موقع کی عظمت کا شعور حاصل ہوا لیکن یہ بھی ہے کہ چھوٹے آدمیوں کے لئے اس عظمت سے دو چار ہونا بہت دشوار تھا۔ جوں جوں سقراط تقریر کرتا گیا اس کے دوستوں نے محسوس کیا کہ مخالفت کی ایک لہر ابھر رہی ہے۔ وہی مخالفت جو کسی زمانہ میں انہیں بھی سقراط سے تھی اور اس وقت تک باقی رہی۔ جب تک وہ اس کے ہم خیال نہیں ہو گئے ۔ یہ امر بڑا تکلیف دہ تھا کہ سقراط کا معیار اٹل تھا اور وہ اپنے اقوال و اعمال کے ذریعہ گویا چھوٹے لوگوں کے افکار اور اعمال کو کسوٹی پر کس رہا تھا۔

سقراط آج یہی کام کر رہا تھا۔ اس کا اصل طریقہ تو یہ تھا۔ آہستہ آہستہ سوال جواب کے ذریعہ تصورات اور افکار کی توضیح کرے، کسی کی سمجھ میں نہ آئے تو رک جائے لیکن آج اس عدالت میں ایسا کرنا ناممکن تھا۔ ہو سکتا ہے اس کے لئے ایتھنز کے لوگوں سے بات کرنے کا یہ آخری موقع ہو۔ اس وقت اسے بے دھڑک اس بات کا اظہار کرنا تھا جو گویا مدت العمر اس کے باطن میں نشوونما پاتی رہی تھی۔ اسے یہ امید تھی کہ شاید ان میں سے کچھ لوگ اس کی باتوں کا مطلب سمجھ سکیں۔

 اس لئے اس نے جیوری کے ارکان سے وہ خوشگوار باتیں نہیں کیں۔ جن کی توقع ایک قیدی سے کی جاتی ہے۔

 ( کہ وہ ان کے رحم وکرم پر ہوتا ہے) بلکہ اس نے وہ حقیقتیں بیان کیں جن کا شعور حاصل کرنا ان کے لئے ضروری تھا۔ اس نے بتایا کہ میں اپنے خاندان کو اپنی سفارش کے لئے کیوں نہیں لایا۔

اپنے دونوں لڑکوں، زن ٹیپی اور اپنے دودھ پیتے معصوم بچے کو اس بات کی اجازت کیوں نہیں دی کہ رو رو کر، جیوری کے ارکان سے رحم کی درخواست کریں۔ یہ ایک رسم تھی جس سے جیوری کو اپنی طاقت کا احساس ہوتا تھا اور انہیں معلوم ہوتا تھا کہ وہ شفقت کا سلوک بھی کر سکتے ہیں۔ سقراط نے اس بات کی توضیح کی، میں نے آخر ایسا کیوں نہیں کیا۔ اس نے انہیں یاد دلایا کہ جیوری کے رکن نے حلف اٹھایا ہے کہ میں قانون کے مطابق انصاف کروں گا اور اپنی مرضی کے مطابق کسی کی طرف داری نہیں کروں گا۔ ہمارا فرض ہے کہ تم کو اس قسم کی ترغیب نہ دلائیں کہ تمہیں اس کی عادت ہی نہ پڑ جائے تمہیں اس خطرے سے ہر بچنا چاہیے۔

اس نے ایتھنز کے شہریوں کو لعنت ملامت کی اور کہا کہ شہر کی سیاسی زندگی کسی اصول کی پابند نہیں ہے۔ اس نے چھ کمانداروں کا قصہ دہرایا۔ شہری یہ قصہ بھول جانا چاہتے تھے کہ اس سے ناخوشگوار یادیں وابستہ تھیں۔ اس نے کہا کہ جس طرح ” تیس” کی آمریت میں کسی شخص کا ایمان دای سے شہر کے لوگوں کی مخالفت کرنا پرخطر تھا۔ اسی طرح جمہوریت کے زمانے میں بھی ہے یہ بات ناممکن ہے کہ کوئی کسی سرکاری عہدے پر ایمان داری سے کام کرے اور زندہ بچ جائے۔

 اس لئے اس نے بذات خود انہیں سدھارنے کا کام اپنے ذمہ لے لیا تھا۔ اس نے کہا ” میں نے جو اس بات کا ذمہ اٹھایا ہے تو سمجھو کہ دیوتا نے شہر پر بڑا کرم کیا ہے۔ اس نے کہا کہ اگر تم مجھے اس شرط پر معاف کر دو کہ میں اب خاموش رہوں گا تو میں اس شرط پر بھی رہا ہونے سے انکار کر دوں گا۔

Socrates trial in court

ایتھنز کے لوگو! اس نے کہا ( دراصل وہ سنجیدگی سے ایسے سوال کا جواب دینے کی کوشش کر رہا تھا جو اس کے ذہن میں کروٹیں لے رہا تھا )

” میں تمہارا دوست ہوں۔ تم سے محبت کرتا ہوں لیکن اس کے باوجود میں تمہارا حکم نہیں مانوں گا۔ دیوتا کی اطاعت کروں گا۔ جب تک میرے جسم میں جان ہے۔ میں ایک فلسفی کی سی زندگی بسر کروں گا۔ جو شخص بھی مجھے ملے گا میں اس کی ہمت افزائی کروں گا اور اسے بتاؤں گا کہ یہ بات سچ ہے حق ہے۔ میں اس سے سوال کروں گا اس کا جائزہ لوں گا۔ اس کے باطن کو ٹٹولوں گا اور اگر میں دیکھوں گا کہ وہ نیک ہونے کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن حقیقت میں نیک نہیں ہے تو میں اسے ملامت کروں گا۔

 میں اس سے کہوں گا کہ وہ بیش بہا چیزوں کو کم بہا تصور کر رہا ہے اور جن چیزوں کی کوئی قیمت نہیں ہے ان کو بیش بہا سمجھ رہا ہے۔ اس لئے ایتھنز کے لوگو! تم چاہو تو مجھے جانے دو اور چاہو تو نہ جانے دو لیکن جو کچھ کرو یہ سمجھ کر کرو کہ میرا طرز عمل یہی ہو گا جس کی میں نے توضیح کر دی۔ خواہ مجھ کو سو بار کیوں نہ مرنا پڑے۔“

 یوں گمان ہوتا تھا گویا وہ مرنا ہی چاہتا ہے۔ کچھ لوگوں نے جنہیں اس کی تقریر کے متعلق بعد میں علم ہوا یہ سمجھا وہ بوڑھا ہو چکا تھا اور شاید زندگی سے تنگ آچکا تھا لیکن اس کی آواز سے یہ نہیں معلوم ہوتا تھا کہ وہ زندگی سے تنگ آ چکا ہے۔ وہ ایماندارانہ لیکن اپنے مخصوص طریقے میں جو لوگوں کو مضطرب کر دیتا تھا۔ اپنے زندہ رہنے کا حق ثابت کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

اس نے ان سے کہا ” اینطوس مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ میں نہیں سمجھتا کہ برا آدمی اچھے آدمی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ (وہ اچھے آدمی کو قتل کر سکتا ہے شاید اسے جلا وطن بھی کر سکے اور وہ سوچے کہ یہ بڑی خوفناک باتیں ہیں لیکن میرے خیال میں ایسا نہیں ہے جو حرکت وہ اس وقت کر رہا ہے وہ ان سے زیادہ بری ہے) میں اپنی وکالت نہیں کر رہا ہوں بلکہ تمہاری وکالت کر رہا ہوں“۔

 اس کے بعد اس نے ایک قصہ سنایا۔ جو بہت دنوں تک لوگوں کو یاد رہا بظاہر وہ قصہ ایک مذاق معلوم ہوتا تھا لیکن تھا بالکل صحیح۔ یہ وہی پرانا قصہ تھا کہ ایتھنز جلیل القدر، ایتھنز مضبوط لیکن کاہل گھوڑے کی طرح ہے

 

a lazy horse of Athiens

اور سقراط بڑ مکھی کی طرح جسے دیوتاؤں نے اس گھوڑے کو جگائے رکھنے کے لئے بھیجا تھا اس میں شک نہیں کہ ایتھنز کے لوگ اس بڑ مکھی سے ناراض تھے۔ جس طرح نیند کے ماتے جگانے والے سے خفا ہوتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اسے ایک ہی وار میں ختم کر دیں گے اور پھر سدا آرام سے سوتے رہیں گے لیکن تمہارے لئے بہتر یہی ہوگا کہ تم مجھے زندہ رہنے دو۔“ اس نے انہیں متنبہ کرتے ہوئے کہا تمہارے لئے یہ ناممکن ہوگا کہ تم مجھ جیسا آدمی تلاش کر لو۔“

یہ واقعی مذاق تھا بلکہ لطیفہ اور بڑے مزے کا ۔ گھوڑا اور بڑمکھی ، صرف یہی نہیں بلکہ سچ پوچھئے تو یہ مقدمہ سرے سے مذاق ہی تو تھا۔ محض ایک لطیفہ۔

ایسی بیادیز ( جو دوسروں کے مقابلہ میں سقراط کے پریشان کن مذاق کے اصل مطلب کو زیادہ سمجھتا تھا ) اگر وہاں موجود ہوتا تو کہتا۔ اس نے اور اس کی سچائی نے سارے مقدمہ کو الٹ پلٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ اس نے اور اس کی سچائی نے گویا عدالت کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور اس نے ججوں کو اپنے متعلق سوچنے اور فیصلہ صادر کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس عدالت میں ملزم گویا صدر عدالت ہے کیونکہ اسے بلند تر نیکی کی اقتدار کا علم ہے اور وہ خوفزدہ نہیں ہے ۔

وہ چاہیں تو اسے ابھی قتل کر دیں۔ میں نے کتنی ہی بار اس کے مرنے کی خواہش کی لیکن مرنے کو تو وہ کوئی تکلیف دہ عمل تصور ہی نہیں کرتا اور اگر وہ اس کی موت کا فتویٰ صادر کریں گے تو اس کی باطنی قوت ان کو کبھی چین نہ لینے دے گی۔ خود مجھ کو بھی کبھی چین نہیں ملا۔”

آخر سقراط نے متانت سے کہا۔ میری دعا ہے کہ دیوتا اور عدالت ایسا فیصلہ صادر کریں جس میں میری بھی بھلائی ہو اور تم لوگوں کی بھی۔ اب اس کی حیرت انگیز تقریر ایکا ایکی ختم ہوگئی ۔ سقراط بیٹھ گیا۔ اس کی تقریر کی وجہ سے شور اور ہنگامہ رک گیا تھا۔  اب پھر شور ہونے لگا۔ نقیب نے اعلان کیا کہ اب رائے شماری ہوگی۔

عدالت کی کاروائی ہوتی رہی ۔ مٹکے ایک طرف لگا دیئے گئے۔ جیوری کے ۵۰۱ ارکان ایک قطار میں اپنی رائے کا نشان ہاتھ میں لئے ہوئے گزرے۔ اب مٹکے میز پر رکھ دیئے گئے کہ رائے شماری ہو سکے۔ دیکھئے کیا فیصلہ ہوتا ہے چند لمحوں میں معلوم ہو جائے گا کہ اس کے بعد کوئی اپیل نہ ہو سکے گی۔ صرف سزا بدلی جاسکتی تھی۔ مستغیثیوں نے سزائے موت کا مطالبہ کیا تھا۔

polling in greeks
Illustration

لیکن سقراط اگر درخواست کرے تو شاید عدالت سزا کو جلا وطنی سے بدل دے۔ انیطوس کو اب بھی امید تھی کہ وہ یہ درخواست ضرور کرے گا۔

لیجئے وہ نقیب آ رہا ہے۔ اب رائے شماری ہو چکی ہے۔ تیس ووٹوں  کے فرق سے فیصلہ ہو گیا ہے۔ عدالت کے منشی نے فیصلہ قلمبند کر لیا ہے۔ نقیب نے سقراط کو اپنے عصا سے چھوا۔ اب معلوم ہوا کہ سقراط مجرم قرار دے دیا گیا تھا۔

اس کے دوست اس فیصلہ کے لئے تیار تھے۔ پھر بھی ان کو یہ فیصلہ بہت شاق گذرا۔ مجمع میں بہت پیچھے جہاں پر راہ چلتے سننے والے کھڑے تھے ۔وہاں بھی تیز و تند جذبات کی ایک لہر اٹھی۔ روغن کے بازار کا ایک معمولی تاجر پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔

عدالت کے قانون کے مطابق سقراط کھڑا ہو کر اپنی سزا کے متعلق تقریر کر رہا تھا۔ اس نے کہا ” مجھے رائے شماری کے نتیجے پر تعجب نہیں ہوا۔ ہاں مجھے یہ امید نہیں تھی کہ اتنے کم ووٹ میرے خلاف جائیں گے لیکن اب میری باری ہے کہ میں خود بھی اپنے لئے مناسب سزا تجویز کروں۔ میں نے کوئی خطا نہیں کی بلکہ حقیقت میں تو میں نے شہر پر احسان کیا ہے تو پھر میں اس وقت شہر کے محسن کی حیثیت سے انعام کا مطالبہ کیوں نہ کروں۔ میری تجویز ہے کہ مجھے یہ انعام دیا جائے کہ حکم صادر ہو، سقراط کا خرچ اب شہر برداشت کرے گا۔”

اس نے سنجیدگی سے کہا (اگر چہ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ وہ مذاق کر رہا ہے )

کھیلوں میں کامیاب ہونے والے کو تم یہ انعام دیتے ہو اور میں نے تو تمہارے لئے دوڑ جیتنے سے زیادہ شاندار کام کیا ہے۔ اس کے علاوہ میں ایک غریب آدمی ہوں۔ مجھ کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے تاکہ میں تمہاری مدد کرتا رہوں ۔“

ان الفاظ نے گویا سزائے موت کی تجویز پر مہر لگا دی ۔یہ بات اسے  اور اس کے دوستوں کو بخوبی معلوم تھی ۔ جب جیوری کے ارکان غصے میں فرائے تو اس نے ان کے چہروں کی طرف دیکھا، اور مذاق کرنا بند کر دیا۔ وہ جانتا تھا کہ جیوری کے ارکان یہ چاہتے تھے کہ سقراط موت کی بجائے جلا وطنی کی تجویز کرے اور اگر وہ یہ تجویز پیش کرتا تو چونکہ اس کے مخالف ووٹوں کی تعداد بہت زیادہ  نہ تھی اس لئے شاید اس کی جان بچ جاتی۔ اس کی جان اب بھی جاسکتی تھی۔

 لیکن اگر میں اپنے شہر ایتھنز میں سچ نہیں بول سکتا تو پھر دوسری جگہ لوگ مجھے سچ کیسے بولنے دیں گے۔“ اس نے صدر عدالت سے پوچھا۔ ” اور خاموش میں نہیں رہ سکتا کیونکہ دیوتا نے مجھے بولنے کا حکم دیا ہے۔ اگرچہ میں جانتا ہوں کہ تم اس بات کو سچ نہیں مانتے۔ ایتھنز کے شہریو! اگر میں یہ کہوں کہ سب سے بڑی خوبی جو آدمی میں ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر روز نیکی کے بارے میں گفتگو کرے اور ایسی ہی باتیں کرے , جیسی میں کرتا رہا ہوں اور اپنے آپ کو اور دوسروں کو پرکھے ۔ اگر میں کہوں کہ اپنے آپ کو پرکھنے کے بغیر زندگی بسر کرنا بے معنی بات ہے تو تم بھلا میری بات کو کیسے سچ مانو گے لیکن ایتھنز کے لوگوا میں تم سے حقیقت بیان کر رہا ہوں۔“

ان تمام باتوں کے باوجود اس نے آخر میں ایک تجویز پیش کی یعنی جرمانے کے طور پر ایک حقیر سی  رقم پچاس روپے۔ اس نے کہا ممکن ہے اس تجویز پر آپ کو ہنسی آئے لیکن میری یہی بساط ہے۔ میں کوئی ایسی سزا تجویز نہیں کر سکتاتھا ۔

 جس سے مجھے نقصان ہو لیکن جرمانہ ادا کرنے سے میرا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ اور جب اس کے دوستوں نے اس رقم میں تیس گنا اضافہ کر دیا۔ کرائٹو ، کرانٹو بولوس، اپالو ڈورس اور افلاطون کھڑے ہو کر چلائے کہ ہم تمام رقم اپنے پاس سے دے دیں گے تو وہ ان کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور ان کے تحفے کو قبول کر لیا۔ اس نے عدالت سے کہا ” میرے دوست رقم ادا کریں گے ان پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔”

جو لوگ اسے جانتے تھے ان کو یہ دیکھ کر تعجب نہیں ہوا کہ اس کی اصل تقریر میں سچ ہی کا ذکر تھا لیکن آخر میں دوستوں کا ذکر بھی آ ہی گیا۔ اس کے بعد کچھ نہیں ہوا۔ جیسا کہ ہر شخص کو توقع تھی۔ رائے شماری کے بعد موت کی سزا کا حکم برقرار رہا۔ دستور تو یہ تھا کہ اسے فوراً ہی وہاں سے لے جاتے لیکن غیر متوقع دیر ہوئی تو سقراط نے موقع سے فائدہ اٹھا کر عدالت سے مخاطب ہو کر کہا۔ ” کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ مجھے اس لئے سزا ہوئی کہ میرے پاس تمہیں متاثر کرنے والے الفاظ کی کمی تھی ؟ ہر خطرہ کسی قسم کا ہی کیوں نہ ہو ، موت سے بچنے کے ہزاروں طریقے ہوتے ہیں۔ موت سے بچنا کوئی مشکل کام نہیں ہے لیکن ناراستی سے بچنا بہت ہی مشکل کام ہے۔“

موت سست ہے پھر بھی اس نے مجھے پکڑ ہی لیا۔ میں بھی تو آخر سست سا بوڑھا آدمی ہوں نا۔ بدی تیز رفتار ہے اور اس نے تم کو پکڑ لیا ہے۔ تم بہت عیار اور تیز ہو نا ،مجھے تو اپنی سزا ملے گی لیکن تم کو بھی اپنی سزا بھگتنی ہوگی۔

اس کے بعد اس نے اپنے دوستوں کو جو اسے بچانا چاہتے تھے تسلی دی۔ اس نے کہا میں دن بھر منتظر رہا کہ شاید دیوتا مجھے ٹوک دیں گے یا متنبہ کر دیں گے لیکن نشان ربانی ظاہر نہیں ہوا۔ معلوم ہوا کہ میرے لئے عدالت میں جانا ہی اچھا تھا جو کچھ میں نے کہا خوب کہا اور نتیجہ بھی اچھا ہی ہوگا۔ یا تو موت صرف ایک نیند تھی یا پھر وہاں بھی (دوسری دنیا میں ) اپنا کام اسی طرح کرتا رہوں گا۔ جس طرح یہاں کرتا تھا۔ اس حقیقت پر تو دل و جان سے ایمان لے آؤ کہ نیک آدمی زندہ ہو یا مردہ اسے بدی اور ناراستی متاثر نہیں کر سکتی۔ نہ بدی اسے نقصان پہنچا سکتی ہے۔ دیوتا اس کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔“

چند منٹوں کے بعد جب قید خانے کے حکام اسے لینے کے لئے آ گئے تو ان کے دل میں سقراط کی یہی بات گویا یادگار رہ گئی۔

_______________________________

 


Leave a Comment