سنگتراش کی شاگردی
.
کارخانے کا کام شہریوں کی باتیں، گلیوں میں کھیل کود میلے ٹھیلے اور سیر تماشے۔ ان سب چیزوں میں سقراط بھی اسی طرح شریک ہوتا تھا جیسے اس کے دوسرے ہم سن۔ اب سب چیزوں کے متعلق اس کے جذبات بھی انہیں کے سے تھے۔ لیکن عمر کے ساتھ ساتھ تو اس میں اور اس کے ساتھیوں میں اختلاف نمایاں ہوتا چلا گیا لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اختلاف شروع کب ہوا۔
ظاہر ہے کہ یہ اختلاف اس سے بہت پہلے شروع ہو چکا ہوگا۔ جب لوگوں کو اس کا شعور حاصل ہوا۔ لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ وہ اپنے دوستوں کی نسبت مختلف چیزوں اور خاص طور سے تصورات کے متعلق علم حاصل کرنے کا زیادہ خواہش مند ہے۔ انہوں نے یہ اندازہ بھی کر لیا ہو گا کہ اس کا انداز فکر دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ مکمل تھا۔ فضا میں اڑتے ہوئے پرندوں کی طرح بھرے ہوئے خیالات اسے تسکین نہ دے سکتے تھے۔ وہ متفرق اور منتشر تصوارت میں ربط پیدا کر کے انہیں ایک ہی خاص سمت میں لے جانے کا تھا۔ کچھ لوگ یہ نکتہ جان گئے ہونگے لیکن شاید ایک طویل مدت تک کسی نے عجیب و غریب اختلاف کو محسوس نہیں ک یا جو سقراط اور ایتھنز کے دوسرےلوگوں کے درمیان دیوتاؤں کے سلسلے میں پیدا ہو گیا تھا۔
شروع شروع میں جب سقراط نے دیوتاؤں کے متعلق لوگوں سے سوالات کرنا اور خود سوچنا شروع کیا تو اسے معلوم ہوا کہ اسے کتنے ہی ملے جلے تصورات کو سلجھانا ہے۔ مثال کے طور پر اس کا دوست ماؤس جو شہر کا بہترین کاریگر تھا۔ وہ خوبصورت سادہ اور سڈول گگریاں اور برتن بناتا تھا۔ اس کے اندازے بالکل صحیح تھے اور اس کا معیار واضح ۔ اس لئے اس کے ذہن میں محجوزہ نقشے کا کوئی جزو کسی دوسرے جزو سے نہیں ٹکراتا تھا لیکن جب وہ دیوتاؤں کے متعلق سوچتا تو معلوم ہوتا تھا کہ پیش نظر کوئی معیار ہی نہیں۔ اس سلسلے میں اس کے تصورات اور افکار کا نظام غیر مربوط تھا۔
جب سقراط بڑا ہوا اور اس نے اپنی معلومات کا دائرہ بڑھانا شروع کیا اسے معلوم ہوا کہ عموماً انسان کے ذہن میں دیوتاؤں کے متعلق الجھنیں سی تھیں۔
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کبھی ذہن میں تصورات تہہ در تہہ جمع ہو گئے ہیں لیکن کسی معیار کو ملحوظ رکھ کر تصورات کی گتھیاں سلجھائی نہیں گئیں اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ بہت ہی کم لوگ تھے۔ جنہیں اس الجھن کا احساس تھا یا جو اس الجھن کو دور کرنے کی بھی کوشش کرتے تھے۔
جب سقراط لوگوں سے دیوتاؤں کے متعلق سوالات کرتا تھا تو وہ جواب میں اسے مختلف قسم کی اچھی یا بری کہانیاں سنا دیتے تھے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ قدیم زمانے میں دیوتا آدمیوں کے معاملات میں بہت دلچسپی لیتے تھے۔
جو لوگ ان کے منظور نظر ہوتے ان کی وہ مدد کرتے تھے۔ مثال کے طور پر اوڈیسیس کا واقعہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ جب کبھی وہ مصیبت میں مبتلا ہوتا تھا تو عقلمند ایتھینا کبھی چھپ کر اور کبھی ایک دراز قامت خوب صورت عورت کے روپ میں اور کبھی ایسی دیوی بن کر جس کی بھوری بھوری دلکش آنکھیں خوب روشن تھیں اور جس کی ڈھال کے کناروں پر سانپ لہراتے تھے۔ اس کی مدد کرتی تھی۔ وہ جہاں بھی ہوتی اس کی فریاد سن کر اس کی مدد کو پہنچتی۔ اگرچہ بعض اوقات وہ مصروف ہوتی تھی یا اوڈی سیس کے مخالف دیوتا اسے مدد کرنے سے باز رکھتے تھے۔ ایسی حالت میں اوڈی سیس کو اکیلے ہی آفتوں کا مقابلہ کرنا پڑتا تھا۔ جب تک وہ اس کی مدد کو نہ آ جائے ( اور سچ یہ ہے کہ وہ خوب ڈٹ کر مقابلہ کرتا تھے)
دیوتاؤں کے دشمن بھی ہوتے تھے جن سے وہ نفرت کرتے تھے اور اس کی وجہ سے سور ماؤں کو کبھی کبھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ایک بار اوڈی سیس نے سائی کلوپس کو اندھا کر دیا جو سمندر کے دیوتا پوز ائیڈن کا تیز مزاج کانا سپوت تھا۔ اگرچہ اس نے یہ فعل اپنی مدافعت میں کیا تھا لیکن اس نے غلطی یہ کی کہ جوش میں آکر فخر کے ساتھ اس بات کا ڈھنڈورا پیٹتا پھرا۔
سائیکلوپس نے اپنے باپ سے شکایت کی اور بدلہ لینا چاہا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب کبھی پوزائیڈن اوڈی سیس کو سمندر میں دیکھتا تو وہ ایک طوفان اٹھا دیتا اور اگر اوڈی سیس کو گرفتار نہ کر سکتا تو جہاز کے کپتان اور ملاحوں کو سزا دیتا۔ جن کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے اوڈی سیس کو پناہ دی۔ ایک مرتبہ اسی بنا پر اوڈی سیس کے جہاز سے اترتے ہی اس کے جہاز کو پتھر میں تبدیل کر دیا۔
جہاز پانی میں بیٹھ گیا اور ایک جزیرہ بن گیا۔ تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں کہ پانی کے دیوتا کے دشمنوں کی مدد کرنے والوں کا یہ حشر ہوتا ہے۔
تو لوگ دیوتاؤں کے متعلق یہ خیال کرتے تھے کہ ایک زمانے میں اولمپس پہاڑ پر رہتے تھے جو آسمان پر ہے اور ایسے انسانوں کی طرح تھے جو طاقتور اور مضبوط ارادے والے ہوں۔ پہاڑ پر وہ دعوتیں اڑاتے تھے اور اپنے منظور نظر انسانوں کے لئے آپس میں لڑتے جھگڑتے تھے۔ ہاں کچھ عرصہ سے ان کے متعلق لوگوں کے خیالات میں تبدیلی پیدا ہوگئی تھی۔ وہ سمجھنے لگے تھے کہ دیوتا اب ان سے بہت دور ہو گئے ہیں اور اب انسانوں میں ان کا کوئی منظور نظر نہیں رہا۔
اگرچہ کھیلوں میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے کے احسانات کا بیان کرتے وقت لوگ اب بھی یہی کہتے تھے کہ فلاں کھلاڑی پر کسی دیوتا کا سایہ تھا۔
دیوتاؤں کی پرستش کرنے میں بے شک کوئی برائی نہیں سمجھی جاتی تھی۔ ہر شخص اطمینان قلب سے ان کی پرستش کرتا تھا اور چڑھاوے چڑھاتا تھا اور یہ روز کا ایسا ہی معمول تھا جیسے کوئی شخص کھانا کھا لے۔ ہر چھٹی کے موقع پر کسی نہ کسی دیوتا کا جلوس نکلتا تھا۔ اور اس کے لئے قربانی کی جاتی تھی۔
کھیلوں کے مقابلے ڈراموں کی پیشکش اور موسیقی کے میلے متبرک تہوار گنے جاتے تھے۔ کھانے کے لئے جو جانور پکتا تھا وہ مارا نہیں جاتا تھا بلکہ بھینٹ چڑھایا جاتا تھا۔ جب بچہ پیدا ہوتا، یا آدمی بالغ ہوتا یا اس کی شادی ہوتی یا مر جاتا یا لڑائی پر جاتا یا سمندری سفر پر روانہ ہوتا یا اسے کوئی سرکاری عہدہ ملتا تو موقع کی مناسبت سےقربانی پیش کی جاتی۔ زندگی بسر کرنے کے اس انداز سے سقراط کے خاندان والوں اور اس کے دوستوں کو یہ اطمینان ہوتا تھا کہ دیوتاؤں اور ان کے باہمی تعلقات کافی اچھے ہیں کیونکہ یہ تمام تقریبات اجتماعی ہوتی تھیں۔
ایسا نہیں ہوتا تھا کہ آدمی ایک کونے میں کھڑا ہو کر عبادت کرے۔ جلوس اور قربانی کے موقع پر عمر کے مطابق ہر شخص کا مرتبہ اور مقام متعین ہوتا تھا اور اس مرتبہ اور مقام کے مطابق اسے کچھ فرائض انجام دینے پڑتے تھے۔ لوگوں کا خیال یہ تھا کہ جو شخص عبادت میں شریک نہیں ہوتا اس کا شہر میں پھر کام ہی کیا ہے۔ اگرچہ دیوتا اب شہر کے دیوتا تھے اور انسانوں میں سے کوئی ان کا منظور نظر نہ ہوتا تھا لیکن سزائیں وہ اب بھی دے سکتے تھے۔
گزشتہ زمانہ میں تو وہ صرف اس شخص کو سزا دیتے تھے جو ان کی ذاتی توہین کرتا تھا لیکن اب وہ اجتماعی نیکی اور راست کاری کی طرف زیادہ متوجہ تھے۔ پھر بھی شخصی عزت کے معاملہ میں وہ اب بھی احساس اور محتاط تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قسم کی اتنی اہمیت تھی کہ اگر کوئی شخص زیوس یا اپولو کی قسم کھا کر کہتا کہ میں یہ کام ضرور کروں گا تو پھر اس معاملے میں متعلقہ دیوتا کی عزت وآبرو کا سوال بھی پیدا ہو جاتا تھا۔
دیوتا قتل سے بہت نفرت کرتے تھے۔ مندر میں قتل کرنا یا گھر کے چولہے کے پاس کسی کو ہلاک کرنا بہت برا فعل سمجھا جاتا تھا کہ گھر کا چولہا بھی قربان گاہ کا کام دیتا تھا۔ اگر کسی نے غلطی سے قتل کر دیا ہو۔ تب بھی خون کے دھبے مشکل سے چھٹتے تھے۔ دیوتا سب سے زیادہ نفرت غرور سے کرتے تھے کہ مغرور شخص اس مقام سے بلند تر ہو جاتا ہے جس کا وہ سزاوار ہے۔
سقراط کے پیدا ہونے سے کوئی دس برس پہلے کا واقعہ لوگوں کو خوب یاد تھا جب خسرو ایران ( زرکیسز ) نے یونان پر حملہ کیا تھا۔ ایرانی فوج ٹڈی دل کی طرح یونان پر ٹوٹ پڑی۔ سپاہیوں کو پینے کا پانی اتنا درکار تھا کہ دریا خشک ہو گئے اور تیر باراں کی کثرت سے سورج نظروں سے چھپ گیا تھا۔ ایرانی شہنشاہ کو اپنی طاقت پر گھمنڈ تھا۔ اس نے ہلیس پونٹ پر کشتیوں کا ایک پل بنوایا۔ جب طوفان سے پل ٹوٹ گیا تو اس نے پانی کو اس طرح کوڑے لگوائے اور داغ دیا گویا سمندر بھی اس کا نافرمان غلام تھا۔
دیوتا شہنشاہ کے غرور کو نہیں بھولے۔ وہ یہ بھی نہیں بھولے کہ ایتھنز میں ایکر و پولس کے مندروں کو جلا کر خاک کر دیا گیا تھا۔ سلامیز کے بحیرے میں جب یونانی بیڑے کا ایرانیوں سے مقابلہ ہوا تو دیوتا یونانیوں کے ساتھ تھے اگر ایسا نہ ہوتا تو یونانی فتح کیسے حاصل کرسکتے تھے۔ ایران کا شہنشاہ سمندر کے کنارے زرق برز لباس پہنے اپنے برق تخت پر بیٹھا لڑائی دیکھ رہا تھا۔
اس کے واقعہ نویس کھڑے ان سرداران لشکر کے نام لکھ رہے تھے جنہیں اپنے کام کی بنا عذاب یا انعام دیا جانے والا تھا۔ ایرانیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور ان کو اپنی کامیابی کا یقین تھا۔ پھر بھی انہیں پسپا ہونا پڑا۔ ان کے جہاز ٹوٹ پھوٹ کر ڈوب گئے ۔ ان کے جنگجو جنہوں نے شکست کا منہ نہیں دیکھا تھا کچھ ساحل پر قتل ہوئے اور کچھ بری جنگ میں ہلاک ہوئے۔ خود شہنشاہ کو اپنی سلطنت میں بغاوت کے شعلے فرو کرنے کے لئے یونان سے بھاگنا پڑا۔ اب بھلا کون شک کر سکتا تھا کہ دیوتاؤں نے مغرور حملہ آوروں کو ذلیل کر کے رکھ دیا۔ مغرور دیوتاؤں کی توہین تھی ۔
حد سے بڑھتی ہوئی خوش نصیبی اور سعادت بھی خطرناک ہو سکتی ہے۔ سقراط کو سمیوس کے پولی کریٹیز کا قصہ سنایا گیا۔ بہت سال پہلے یہ شخص مشرقی جزیروں کا طاقتور حکمران تھا۔ وہ اتنا دولت مند اور ہر لحاظ سے اتنا خوش نصیب تھا کہ فرعون مصر کی نظروں میں بھی بچ گیا اور دونوں میں دوستی کا معاہدہ ہو گیا
لیکن فرعون ڈرتا تھا کہ دیوتا پولی کریٹینر کی خوش نصیبی کو اچھا نہیں جانیں گے۔اس لئے اس نے اپنے دوست کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی سب سے بیش قیمت چیز پھینک دے تاکہ یہ نقصان اٹھا کر دیوتاؤں کے عذاب سے محفوظ رہے۔
پولی کریٹینر نے بھی اسی مشورے پر عمل کرنا مناسب خیال کیا۔ اس نے اپنے تمام خزانوں کو کھنگالا اور ایک بہت قیمتی طلائی انگوٹھی نکالی جس میں زمرد جڑا تھا۔ وہ ایک بڑی کشتی میں بیٹھ کر جو پچاس چپوؤں سے کھینچی جاتی تھی۔ سمندر میں گیا اور انگوٹھی گہرے پانی میں پھینک دی۔ اس کے بعد اس نے سمجھا کہ اب مجھے تکلیف نہ پہنچے گی۔
ایک دن ایک ماہی گیر ایک تازہ مچھلی لے کر آیا۔ اور کہا کہ مچھلی اتنی عمدہ ہے کہ میں اسے کسی معمولی آدمی کے ہاتھ فروخت نہیں کرنا چاہتا بلکہ آپ کی خدمت میں تحفہ کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہوں۔ پولی کریٹینر اس تحفہ اور تعریف سے بہت خوش ہوا۔ اس نے ماہی گیر کو رات کے کھانے پر مدعو کیا اور حکم دیا کہ مچھلی شاہی باورچی خانہ میں پکائی جائے۔ لیکن جب باورچیوں نے مچھلی کو کاٹا تو یہ دیکھ کو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ان کے آقا نے جو انگوٹھی پانی میں پھینکی تھی وہ اس مچھلی کے پیٹ میں موجود تھی۔
جب فرعون کو اس انگوٹھی کی واپسی کی اطلاع ملی تو اس نے فورا ہی پولی کریٹینر سے دوستی کا معاہدہ توڑ دیا۔ یہ بات صاف ظاہر تھی کہ دیوتا اس آدمی پر سخت عذاب نازل کرنے کی تدبیروں میں مصروف تھے اور ہوا بھی یہی۔ تھوڑے ہی دنوں کے بعد پولی کریٹینر بے دردی سے قتل کر دیا گیا اور اس کی سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی۔ دیوتاؤں نے اس کا یہ قصور معاف نہیں کیا تھا کہ وہ بہت خوش نصیب اور کامگار ہے۔
دیوتاؤں کی یہ کہانیاں سقراط نے بچپن میں سنی تھیں۔ پرانے زمانہ میں دیوتا جھگڑتے تھے، جھوٹ بولتے تھے، چوری کرتے تھے اور آدمیوں کے بھیس میں اپنے دوستوں کو بچاتے اور ان کے دشمنوں کو نقصان پہنچاتے تھے۔ اس کے اپنے زمانہ میں دیوتا اگرچہ ویسے نہیں رہے تھے پھر بھی طاقتور تھے اور بدکاری یا غرور یا بہت خوش اقبالی کا جرم معاف نہیں کرتے تھے۔
ان اندوہ ناک کہانیوں کے باوجود تہواروں کے موقع پر جلوس اور قربانیاں اور دعوتیں ہوتی رہتی تھیں ۔ ہر سال ایتھینا کے بڑے برزگ لکڑی کے بت کو سمندر کے کنارے لے جاتے تھے کہ اسے غسل دیا جائے ۔
متبرک سانپ کے لئے مندر میں میٹھی ٹکیا کا چڑھاوا چڑھتا تھا۔ لوگ دیوتاؤں کی قسمیں کھاتے تھے۔ پھر توڑ دیتے تھے اور ان کا کچھ نہیں بگڑتا تھا۔ حالانکہ اس سلسلے میں خوفناک کہانیاں بیان کی جاتی تھیں۔ مناسب موقعوں پر دیوتاؤں کو بھینٹ چڑھانا دانائی اور دنیاداری کا کام سمجھا جاتا تھا۔ ہاں چند لوگ جو بقول کسے” دیوتاؤں بہت ڈرتے تھے” وہ اس سے آگے کی بات بھی سوچتے تھے۔ چرانے اور جھوٹ بولنے سے وہی بڈھے پھونس ڈرتے تھے جن کو یہ خوف تھا کہ دوسری دنیا میں انہیں سزا ملے گی یا دیوتا ان سے بدلہ لیں گے۔ فیصلہ تو دراصل وہ تھا جو قانونی عدالتوں میں ہوتا تھا۔
یہ تھے دیوتا اور یہ تھا ان کی پرستش کا انداز۔ سوال یہ ہے کہ سقراط کا ان معاملات کے متعلق کیا خیال تھا۔
اس نے شروع ہی میں یہ تو دیکھ لیا تھا کہ اس کے دوستوں پر ان باتوں کا کوئی خاص اثر نہیں تھا۔ دیوتاؤں کے رشک و حسد کی کہانیاں سن کر ان کے جسموں میں ایک جھرجھری سی تو ضرور پیدا ہو جاتی تھی لیکن مالدار اور دولت مند ہونے کے خواب بھی وہ دیکھتے رہتے تھے۔ وہ چوری کرنے اور جھوٹ بولنے کے سلسلہ میں دیوتاؤں کی چالاکیوں کا مذاق اڑاتے تھے لیکن جب ڈراموں میں گناہگار کو دیوتاؤں کے ہاتھوں سزا پاتے دیکھتے تو وہ واقعی بہت غمگین ہو جاتے تھے۔ وہ کھیل میں بے ایمانی سے بھی کام لیتے اور اطمینان قلب سے پرستش بھی کرتے تھے۔ البتہ سقراط کا مزاج ان سے بالکل مختلف تھا۔اسے حیرت کا احساس ہوتا تھا اور وہ اپنے ذہن میں ایک چیز اور دوسری چیز میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کرتا تھا۔
ہاں ایک اور فرق بھی تھا۔ لوگ دیوتاؤں کے متعلق جو چاہیں سو کہیں لیکن سقراط ایک عملی معیار کو پیش نظر رکھتا تھا۔ بچپن ہی سے اسے نشان ربانی پر بھروسہ تھا ۔ کبھی کبھی سقراط پر ایک خاص کیفیت طاری ہوتی تھی اور یہ کیفیت اسے کوئی کام کرنے سے اس لئے روک دیتی تھی کہ وہ اسے اچھا نہیں سمجھتا تھا۔
سوال یہ ہے اس لفظ ”اچھا ” کے کیا معنی تھے۔ اچھائی کی حقیقت وہ محسوس تو کرتا تھا۔ لیکن ابتداء میں بیان نہیں کر سکتا تھا۔ اس کا کوئی نہ کوئی تعلق مسرت سے ضرور تھا۔ اس کا تجربہ شاہد تھا کہ جب کبھی وہ اس نشان ربانی کے مطابق عمل کرتا تھا تو انجام بخیر ہوتا تھا۔ یوں وہ اس نتیجہ پر پہنچا تھا کہ اسے نشان پر بھروسہ کرنا چاہیے اور بغیر کسی تامل کے متعلقہ احکام پر عمل کرنا چاہیے۔ ”نشان ربانی” ضرور دیوتاؤں کی طرف سے آتا ہوگا کیونکہ انہیں ہر چیز کاعلم تھا۔
بڑا ہونے کے بعد بھی سقراط اس نشان کے متعلق زیادہ بات نہیں کرتا تھا۔ بچپن میں تو شاید اس نے اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ جس طرح لوگ اس کا مطلب بعد میں نہیں سمجھے۔ اسی طرح اس وقت بھی نہ سمجھے تھے۔ یہ بات نہ تھی کہ اس کا خیال ہو کہ اس کے باطن میں کوئی دیوتا مخفی بیٹھا ہے۔ جیسا کچھ لوگوں کا خیال تھا اس نشان سے مراد ضمیر بھی نہ تھا۔ جو یہ کہتا کہ ظلم اور رحم کیا ہے۔ جھوٹ اور سچ کیا ہے۔ ان کے درمیان جو فرق ہے اسے وہ ہماری آپ کی طرح محسوس کرتا تھا۔ لیکن یہ اس نے کبھی نہیں کہا کہ نشان ربانی نے اس کی راہنمائی کی ہے۔
نشان ربانی کی بنا پر جن کاموں سے وہ رک جاتا تھا وہ معمولی روز مرہ کے کام ہوتے تھے، مثلاً کسی جگہ جانا یا کسی شخص سے بات کرنا۔ کوئی اور شخص ہوتا تو وہ اسے قسمت سے متعلق کر دیتا اور اسے واہمہ کی حد تک پہنچا دیتا مثلاً یہ کہ دراڑ پر پاؤں نہ رکھو یا سیڑھی کے نیچے سے نہ گزرو۔ سقراط ”نشان” سے بالکل مختلف کام لیتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ ” نشان“ کے ذریعے وہی طرز عمل اختیار کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے جسے اس کے دل نے درست سمجھا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ دیوتا اسے کسی نیک راستے کی طرف لے جارہے ہیں اور اس لئے اسے ان کا حکم ماننا چاہیے۔
یہ ایک بالکل معمولی بات تھی لیکن سقراط کو جس بات کا علم تھا وہ گویا اس کے دلنشین ہوتی تھی اس لئے نشان ربانی کے مطابق دیوتاؤں کے متعلق اس کے سوچنے کا طریقہ بھی بالکل بدل گیا اور یہ تبدیلی ایسی تھی کہ اگر وہ اپنے شہر کے لوگوں سے ذکر کرتا تو شاید ہی تھا کہ ان کے پلے کچھ پڑتا۔
اس کے خیال میں پہلی بات تو یہ تھی کہ دیوتا انسانوں کا خیال رکھتے تھے۔ وہ محسوس کرتا تھا کہ یہ بات سچ ہے۔ اس کا دل اس پر گواہی دیتا تھا کہ دیوتا صرف پرانے بادشاہوں اور سورماؤں کا خیال ہی نہیں رکھتے تھے بلکہ سقراط بھی ان کے دھیان سے نہیں اترتا تھا حالانکہ وہ بیچارہ سفرونس کس سنگ تراش کا لڑکا تھا۔
پھر یہ کہ دیوتا اچھے تھے۔ نشان ربانی نے اس معاملے میں بھی اس کے دل کو ایمان سے لبریز کر دیا۔ ان میں وہ تمام خوبیاں تھیں جو انسانوں میں ہوتی ہیں اور وہ صرف انسانوں کی بھلائی کے خواہاں تھے۔ جھوٹ بولنے اور چوری کرنے والے، حاسد اور غضبناک دیوتاؤں کی پرانی کہانیاں ان لوگوں نے گڑھی تھیں جنہیں کسی بات کی سمجھ نہیں تھی۔ اچھائی میں تو دیوتا کی پہچان تھی اور جو بات اس کے خلاف جاتی تھی وہ محض خیال آرائی ہی خیال آرائی تھی۔
بعد میں ایتھنز میں کچھ اور لوگ بھی اس تصور کے متعلق باتیں کرنے لگے تھے اور کہتے تھے کہ یہ بات سچ ہونی چاہیے لیکن سقراط کو اس کے سچ ہونے پر یقین تھا۔ دیوتا نیک تھے اور جو لوگ ان کی پرستش کرتے تھے ان سے بھی وہ نیکی کے طالب تھے۔ دیوتاؤں پر ایمان لانے کی شناخت یہی تھی کہ وہ نیک ہونے کی شرط پوری کرے۔ سقراط کی زندگی میں کوئی چیز بھی اس ایمان کو نہیں بدل سکتی تھی ۔ ایک بار جب وہ ایمان اور یقین کے اس درجے پر پہنچ گیا تو پھر اس کی اعمال و افعال کی وضع ہی بدل گئی۔
بعض اور ایسی تفصیلات بھی تھیں جن کا سقراط کو علم نہیں تھا۔ یا جن کے متعلق وہ سوال ہی نہیں کرتا تھا۔ اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ دیوتاؤں کی شکل و صورت کیسی ہے۔ ان کی تعداد کیا ہے۔ وہ موقع محل کے مطابق کسی ایک دیوتا کی پرستش کر لیتا تھا اور کبھی “خدا” یا “رب” کے متعلق باتیں کیا کرتا تھا ( ایسے موقعوں پر شاید ” خدائے واحد ” یا ” رب اعلیٰ مراد لیا جاتا تھا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ یونانی کلمات کا مفہوم بالکل واضح ہے۔ کبھی خداؤں کا ذکر آ جاتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اچھے دیوتاؤں کی تعظیم و تکریم بہرحال سعادت ہے۔
عام طور سے تو وہ شہر کے رسم و رواج کے مطابق دیوتاؤں کی عبادت اور تعظیم کرتا تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ جو کچھ وہ کرتا تھا اس کے معانی اور اہمیت کے متعلق سوچتا بھی تھا۔ مثال کے طور پر اس کے دوستوں نے دیکھا کہ وہ عام طور پر دیوتاؤں کا نام لاپرواہی سے نہیں لیتا تھا۔ جب وہ کسی بات پر بہت زور دینا چاہتا تھا تو دوسروں کی طرح یوں نہیں کہتا تھا کہ زیوس کی قسم۔ بلکہ یوں کہتا مصر کے کتے کی قسم کیونکہ مصر کے کتے کے سر والا دیوتا اس کے نزدیک دیوتا نہ تھا بلکہ دیو تھا۔ جب وہ کسی دیوتا کی قسم کھاتا تھا تو پھر اس قسم کو پورا بھی کرتا تھا۔
یہ سہولتیں بہم پہنچانے کی کوشش کرتا کہ اور لوگ بھی اپنے وعدے پورے کریں۔ یوں بچپن ہی میں چھوٹی چھوٹی باتوں کے ذریعہ اور بعد میں بڑی بڑی باتوں کے ذریعہ یہ ظاہر ہو گیا کہ دیوتاؤں اور نیکی کے متعلق اس کے تصورات اور عام لوگوں کے تصورات میں اختلاف ہے۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا لوگ اس اختلاف کو زیادہ شدت سے محسوس کرنے لگے اور اسی کی بنا پر وہ اس سے نفرت یا محبت کرنے لگے لیکن جن دنوں وہ بچہ تھا اور دوسرے بچوں کے ساتھ اپنے پیشہ کے گُر سیکھ رہا تھا یہ اختلاف مخفی تھا۔ کسی شخص کو ایک معمولی سنگ تراش کے لڑکے سے کسی غیر معمولی بات کی توقع نہیں تھی۔
__________________________