جسم فروشی کی تاریخ – Part 1

جسم فروشی کی تعریف


.

jisam faroshi

کسی موضوع پر لکھنے سے پہلے اسکی تعریف متعین نہ کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہوتی ہے۔ لکھنے سے پہلے ہمیں درست طور پر طے کرنا ہوگا کہ طوائف ہوتی کون ہے ۔

ماضی میں اس موضوع پر لکھنے والوں نے طوائف کی تعریف مختلف انداز سے بیان کی ہے۔ 1851ء میں “پال لیکرائیکس” نے لکھا کہ ایسی تمام عورتیں، جو شادی کئے بغیر یا اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور مرد کے ساتھ جنسی عمل کرتی ہیں۔ طوائف ہوتی ہیں ۔

 اس سے قبل 1842ء میں “وارڈ لا” نے جسم فروشی کی تعریف متعین کرتے ہوئے اسے مرد و زن کا “غیر قانونی جنسی اختلاط” قرار دیا تھا۔ دوسری طرف طوائف کے حوالے سے یہ تصور معروف ہے کہ وہ ایک ایسی عورت ہوتی ہے، جو اپنا جسم رقم کے عوض مختلف مردوں کو عارضی طور پر استعمال کرنے کے لیے سونپ دیتی ہے۔  یہ تصور واضح طور پر محدود ہے۔ ویبسٹر ڈکشنری میں بھی جسم فروشی کا یہی مطلب درج ہے یعنی عورت کا اپنا جسم کرایہ پر دینا۔

یہ امر اہمیت کا حامل ہے کہ ایک مسٹریس (Mistress) اور طوائف میں بھی اسی طرح فرق ملحوظ رکھنا چاہیے۔ جس طرح کہ ایک شادی شدہ عورت اور طوائف میں ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ ایسی عورت جو کسی مرد کے ساتھ شادی کیے بغیر خاص عرصے تک رہتی ہے اور بعد ازاں کسی دوسرے مرد کے ساتھ اسی انداز میں رہنے لگتی ہے اسے مسٹریس کہا جاتا ہے۔ ایسی عورت کو طوائف کہنا درست نہیں ہے۔

جسم فروشی کو ایسی عورتوں تک محدود کرنا بھی اس پیشے کی درست تعریف نہیں ہے جو کہ ناجائز جنسی تعلقات کے ذریعے اپنی روزی حاصل کرتی ہیں۔ یہ تعریف محدود اور غیر منطقی ہے۔ غیر پیشہ ور اور پیشہ ور طوائف میں ہمیشہ رقم کو فرق تصور کیا جاتا ہے۔ گہرا تجزیہ کیا جائے تو یہ فرق لا یعنی ثابت ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بہت سی عورتیں سکہ رائج الوقت کی بجائے کسی دوسری صورت میں معاوضہ حاصل کر کے ناجائز جنسی تعلقات قائم کر سکتی ہیں۔ رقم تو محض ایک علامت ہوتی ہے۔ پیشہ ور طوائف کے برعکس غیر پیشہ ور طوائف کا تو ایک خاص ”مقصد“ بھی ہوتا ہے۔ معروف تصور کے مطابق اگر کوئی مالی لین دین نہیں ہوا تو اس کا لازمی مطلب یہ نہیں ہے کہ کام بغیر کسی معاوضے کے ہوا ہو گا ۔

 یہ غیر پیشہ ور طوائفیں جیسا کہ انہیں سہولت کے لئے کہا جاتا ہے ۔ مہذب ملکوں میں سالہا سال تعداد کے اعتبار سے بڑھتی جارہی ہیں اور پیشہ ور طوائفوں کے مخصوص حلقے میں مسلسل زیادہ سے زیادہ دخل اندازی کر رہی ہیں۔ معاشرے کے کسی معزز فرد کے ذہن میں جسم فروشی کے حوالے سے جو کراہت اور نفرت موجود ہوتی ہے۔ وہ حقیقتاً ہر سودے میں رونما ہونے والی شہوت میں موجود ہوتی ہے حالانکہ ریاست اور چرچ کے زیر سایہ ہونے والی شادیاں بھی حقیقت میں ایسی ہی ایک تجارت ہوتی ہیں، تاہم اس حقیقت کو کبھی بیان نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح کا ایک اور نزاع یہ ہے کہ جس سودے میں مالی لین دین نہ ہو اُسے جسم فروشی نہیں کہا جاتا۔ یہ مفروضہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتا ہے کہ بہت سی شادیوں میں بھی مالی فائدے اور معاشی افادے کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔

طوائف کی قانونی تعریف کے برعکس اس لفظ کی ہر تعریف میں پیشہ ور اور غیر پیشہ ور دونوں طرح کی جسم فروش عورتوں کو شامل کیا جاتا ہے۔ قانون ۔۔۔۔۔۔۔۔  اور سب سے بڑھ کر چرچ اور عوام ۔ اپنے فیصلوں میں مال و دولت کے عوض جسم فروشی کر کے روزی کمانے والی عورتوں کے علاوہ اور کسی کو شامل نہیں کرتے ۔ ایک معروف مفروضہ ہے کہ شادی کی وجہ سے قانون کی تعبیر کے مطابق جسم فروشی کہلانے والے عمل کے وقوع کا امکان ختم ہو جاتا ہے۔ یہ مفروضہ اخلاقی یا عمرانیاتی نکتہ نظر کے موافق دکھائی نہیں دیتا ہے۔

jisam faroshi ki tareekh

جسم فروش عورت ناجائز جنسی عمل میں ملوث ہوتی ہے تو محبت یا جنسی جذبے کے علاوہ اس کا مقصد و محرک کسی حد تک یا مکمل طور پر کوئی دوسرا ہوتا ہے طوائف شاذ و نادر ہی جنسی خواہشات کی اسیر ہوتی ہے البتہ یہ الگ بات ہے کہ جنسی خواہشات کی اسیر کوئی عورت طوائف بن جائے۔ اس کے باوجود طوائف کے پیشہ ورانہ افعال میں محبت کی عدم موجودگی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ محبت کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔  طوائف کے حوالے سے دو مفروضے بہت مشہور ہیں۔  پہلا مفروضہ یہ ہے کہ ہر جسم فروش عورت جس قدر مردوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکے ان کے لیے شہوت کا آتش فشاں ہوتی ہے۔

دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی فرد کے لیے محبت جیسا جذبہ بالکل نہیں رکھتی۔ یہ دونوں مفروضے غلط ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جسم فروش عورت کسی شدید جنسی خواہش کے بغیر اپنا جسم یکے بعد دیگرے بہت سے مردوں کو رقم کے عوض سونپ دیتی ہے تاہم وہ کسی ایک مرد سے حقیقی محبت کرنے کی بھی اہل ہوتی ہے۔  بعض افراد کا کہنا ہے کہ محبت کے عنصر کی عدم موجودگی ایک ایسا بنیادی عامل ہے۔ جو کہ عورت پر طوائف کا ٹھپہ لگا دیتا ہے۔ ایسے افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ جسم فروشی کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ جسم فروش عورت اپنی جنسی مہمات سے کوئی لذت حاصل نہیں کرتی۔ اس کو تو صرف اپنی خدمات کے بدلے میں حاصل ہونے والی رقم سے دلچپسی ہوتی ہے۔

 ہم سب اس حقیقت سے خوب آگاہ ہیں کہ کسی بھی لذت آمیز عمل کو بار بار کیا جائے تو اسکا مخصوص مزہ ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔ چنانچہ اس امر میں ذرا سا بھی شبہ نہیں ہے کہ کئی برسوں سے جسم فروشی کرتی چلی آنے والی عورت کے لیے جنسی تعلقات میں کوئی لذت نہیں رہ جاتی کیونکہ جنسی عمل اس کے لیے معمول بن چکا ہوتا ہے۔ تاہم کیا یہ بھی حقیقت نہیں ہے کہ بہت سی شادی شدہ عورتیں بھی اپنے شوہروں کے ساتھ مسلسل کئی برسوں سے جنسی تعلقات قائم کرتے چلے آنے کی وجہ سے جنسی عمل سے لذت حاصل کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔

اکثر طوائفیں کاروبار اور لذت کا امتزاج کر لیتی ہیں اور جنسی عمل کے لیے ایسے گاہکوں کا انتخاب کرتی ہیں ۔ جن سے انہیں لذت بھی حاصل ہوتی ہے اور رقم یا اس کا متبادل معاوضے کے طور پر بھی حاصل ہوتا ہے۔ جنسی عمل سے حاصل ہونے والی لذت کا محبت سے تعلق ہونا ضروری نہیں ہے۔ محبت تو سراسر دوسری شے ہے۔ جنسی تسکین کے لیے طوائفوں کے ہاں جانے والے بیشتر مرد لذت تو حاصل کرتے ہیں تاہم ان میں سے چند ایک ہی کو ان عورتوں سے محبت ہوتی ہے جن کا بنیادی کردار جنسی لذت فراہم کرنے والے وسیلے کا ہوتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ بہت سی شادی شدہ عورتوں کو اپنے خاوندوں سے محبت نہیں ہوتی۔ حتٰی کہ شادی کے وقت بھی انہیں ان سے کوئی محبت نہیں تھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض عورتیں جن مردوں سے محبت کرتی ہیں۔ اُن سے شادی کے بعد وہ ان کے لیے جنسی اعتبار سے “ٹھنڈی” ہو جاتی ہیں۔ ایسی صورت میں شادی شدہ عورت اور طوائف میں فقط اتنا سا فرق رہ جاتا ہے کہ اس نے صرف ایک “آدمی ” سے اپنے جسم کے استعمال کا معاہدہ کیا ہوتا ہے اور اس  معاہدے کو ریاست اور چرچ کی طرف سے منظوری حاصل ہوتی ہے۔

یہاں مرد جسم فروش (Male Prostitute) کا بھی سوال ہے۔ جسم فروشی صرف اور صرف عورت ہی کا پیشہ نہیں ہے، نہ ہی ایسا ہے کہ صرف مرد طوائفوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مردجسم فروشوں کو’ جنہیں عام طور پر گیگولو (Gigolo) کہا جاتا ہے۔

عورتیں ملازم رکھتی ہیں اور انہیں باقاعدہ معاوضے ادا کرتی ہیں۔ کج رو اور ہم جنس پرست مرد، ایسے   مرد جسم فروشوں کو ملازم رکھتے ہیں، جو کہ مفعول ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہمیں جسم فروش کی تعریف متعین کرتے ہوئے دونوں اصناف کو شامل کرنا ہوگا اور اس نکتے کو ذہن میں رکھتے ہوئے نیز اپنی گزشتہ آراء کو پیش نظر رکھ کر ہم درج ذیل تعریف متعین کرتے ہیں:

” ایک ایسا فرد ، مرد یا عورت، جو کہ مالی یا کسی اور طرح کے معاوضے کے بدلے یا محبت سے عاری لذت کے حصول کے لیے جسم فروشی کو جزوقتی (پارٹ ٹائم) یا کل وقتی پیشے کے طور پر اپنا لے اور لاتعداد لوگوں کے ساتھ نارمل یا ابنارمل جنسی عمل میں حصہ لے، خواہ ان کا تعلق اس کی اپنی صنف سے ہی ہو اسے طوائف کہتے ہیں۔”

___________________________

 


Leave a Comment