مشرقی ممالک میں جسم فروشی
.
تقریباً ایک صدی پہلے فرانس، ایل ہاکس نے درج ذیل اہم بات لکھی تھی:
” جاپانی معاشرے کی ایک خصوصیت ایسی ہے جس نے اس قوم کو دوسری سب اقوام پر فوقیت دلا دی ہے۔ وہ خصوصیت یہ ہے کہ جاپان میں عورت کے ساتھ غلام نہیں بلکہ ایک رفیق کا سا برتاؤ روا رکھا جاتا ہے۔ اگرچہ ہر ملک کی طرح یہاں بھی جسم فروشی ہوتی ہے مگر جاپانی طوائفوں کی تعریف کی جانی چاہئے کہ وہ بہت ذیادہ پست اور فحش طرز عمل کا مظاہرہ نہیں کرتیں۔“
(Francis L.Hawks, Narrative of the Expedition of An American
Squadron to The China Seas And Japan, 1865, P. 462).
جاپان میں طوائفوں کے ساتھ بھی دوستانہ برتاؤ کیا جاتا تھا۔ بلاشبہ کرۂ ارض پر کوئی ملک ایسا نہیں ہے کہ جہاں طوائفوں کو ویسی عزت دی جاتی ہو جیسی کہ جاپان میں دی جاتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جاپانی بھی یورپیوں اور امریکیوں کی طرح یقین رکھتے تھے کہ طوائفیں تہذیب یافتہ زندگی میں نہایت ضروری مقام رکھتی ہیں، تاہم انہوں نے اس حقیقت پر یقین رکھتے ہوئے طوائفوں کو معاشرے سے الگ تھلگ نہیں کیا بلکہ کمیونٹی کی زندگی میں ایک اہم مقام دیا۔
حکومت اور عوام کے اس رویے کی وجہ سے کسی جاپانی لڑکی کے لیے یہ ایک معمول کی بات ہے کہ وہ کسی دوسری طرح کے کام کی طرح جسم فروشی کو اختیار کر لے۔ اس کے نزدیک یہ روزی کمانے کا صرف ایک ذریعہ ہوتا ہے۔ اسی رویے کی وجہ سے جاپان میں شاید دنیا کے ہر ملک سے زیادہ عارضی طوائفیں ہیں۔ طوائف ہونے سے لڑکی کو شادی کرنے یا کوئی دوسرا کام اختیار کرنے یا گھر واپسی میں کبھی کوئی دشواری نہیں رہی ہے۔ چکلے کبھی ڈھکے چھپے نہیں تھے بلکہ مہنگے اور معززانہ ہوٹل ہوتے تھے۔
(Leslie W. Johns, Japan, Reminiscences and Realities, Stanley
Paul, London, n.d, P.134)
مرد بھی یہاں ایسے کھلم کھلا جاتے جیسے کسی ریستوران یا تھیٹر میں جا رہے ہیں۔ اس ضمن میں جانز لکھتا ہے: ” میں ایک جاپانی بزنس مین سے ملنے دفتر گیا مجھے بتایا گیا کہ وہ چکلے گیا ہوا ہے اور اگر میں چاہوں تو وہاں جا کر اس سے مل سکتا ہوں۔“
جاپان میں کئی صدیوں سے جسم فروشی کا باقاعدہ نظام قائم ہے۔ اوئے ٹاڈا فوسا اور دوسرے تاریخ نگاروں کے ہاں حوالے ملتے ہیں کہ قدیم زمانوں میں بھی یہ نظام موجود تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ چکلوں کو شہر کے ایک خاص علاقے میں محدود کر دیا جاتا تھا۔ کیمفر نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ سترہویں صدی میں ناگاساکی کے تمام چکلے شہر کے ایک حصے میں دو گلیوں میں واقع تھے۔ یہ مؤرخ لکھتا ہے:
”لڑکیوں کو کمسنی ہی میں ان کے والدین سے خرید لیا جاتا ہے۔ قیمت لڑکی کی خوبصورتی اور جسم فروشی کے عرصے کے مدِنظر طے ہوتی ہے۔ ایک چکلے میں سات سے لے کر تیس تک طوائفیں ہوتی ہیں۔ انہیں نہایت عمدہ گھروں میں رکھا جاتا ہے اور رقص کرنے، گانا گانے مختلف ساز بجانے، خطوط لکھنے اور طوائف کی زندگی کے سب طور اطوار سکھائے جاتے تھے۔ پرانی طوائفیں ان فنون اور اطوار کی ماہر ہونے کی وجہ سے نوجوان طوائفوں کی تربیت کرتی تھیں اور اپنی باری آنے پر وہ یہ فریضہ ادا کرتیں۔ جو لڑ کی سیکھنے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی اُسے انعامات دیئے جاتے تھے۔
ایک طوائف کا ایک رات کا معاوضہ اچھا خاصا ہوتا تھا لیکن اس سے زیادہ مانگنے پر اُسے سزا دی جایا کرتی تھی۔ جو طوائف بہت زیادہ استعمال ہو چکی ہوتی ہے وہ دروازے کے ساتھ ایک چھوٹے سے کمرے میں گاہکوں کا انتظار کرتی ہے اور گاہک مل جائے تو بہت تھوڑا معاوضہ پاتی ہے۔ جو طوائفیں اپنی مدت گزار چکی ہوتی ہیں وہ شادی کر کے شریف عورتوں کی طرح عام لوگوں میں گھل مل جاتی ہیں۔“
(E.Kaempfer, History of Japan, 1727)
کیمفر لکھتا ہے کہ مذہبی پیشوا بھی جسم فروشی کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور معبد چکلوں سے کچھ ہی بہتر ہوتے تھے۔ ہمبرٹ لکھتا ہے کہ ایک زمانے میں معبدوں کی تصویریں ایسے ہی آویزاں ہوتی تھیں جیسے آج کل تھیٹروں اور سینماوں میں اداکاراوں کی تصویریں آویزاں ہوتی ہیں ۔
چائے خانے ہمیشہ جاپانی زندگی کا ایک اہم حصہ رہے ہیں۔ کیمفر لکھتا: کہ ان چائے خانوں میں بیشمار خوبصورت لڑکیاں ہوتی تھیں، جو کہ درحقیقت طوائفیں ہوتی تھیں۔ وہ کھلم کھلا گاہکوں سے مول تول کر رہی ہوتی تھیں۔ گزرگاہوں پر واقع سراؤں میں بھی یہی کچھ ہوتا تھا۔ یہ لڑکیاں نہایت ترغیب آمیز لباس پہن کر اور خوب میک اپ کر کے سرائے یا چائے خانے کے دروازوں پر کھڑی ہو جاتیں یا نزدیک ہی پڑے بینچ پر بیٹھ جاتیں اور آنے والے مردوں کو دلکش مسکراہٹوں سے نوازتی تھیں۔
جہاں دو سرائیں قریب قریب ہوتیں، وہاں ان لڑکیوں کی رقابت نمایاں نظر آتی تھی۔ کیمفر لکھتا ہے کہ اکاسا کی اور گوئے نامی شہروں میں طوائفوں کی رقابت زیادہ عیاں تھی کیونکہ یہاں چکلے زیادہ تھے۔ ہر چکلے میں تین، چھ یا سات سات طوائفیں ہوتی تھیں۔ جو مسافر بھی یہاں سے گزرتا وہ طوائفوں سے ضرور فیض یاب ہوتا تھا۔ بعض اوقات کسی سرائے میں گاہک زیادہ ہوتے اور طوائفیں کم پڑ جاتیں تو ہمسائے میں واقع سرائے ہنسی خوشی اپنی کچھ طوائفیں رعایتاً مہیا کر دیتے تھے ۔ شرط صرف یہ ہوتی کہ ان کی ساری کمائی دیانتداری سے انہی کو دے دی جائے۔ یہ کوئی نئی رسم نہیں تھی۔
درحقیقت یہ بہت پرانی رسم تھی اور کئی سو سال پہلے اولین سیکولر بادشاہ اور جرنیل جوری ٹومو کے دور میں شروع ہوئی تھی۔ اس نے سوچا کہ کہیں اس کی طویل فوجی مہمات کے دوران فوجی اپنی بیویوں اور بچوں کی یاد ستانے پر فوج سے بھاگ نہ جائیں۔ اس نے یہ سوچ مدنظر رکھتے ہوئے سرکاری اور نجی چکلوں کے قیام کی اجازت دی اور انہیں طوائفوں میں مشغول کروا دیا۔
چائے خانوں میں طوائفوں اور ان کے گاہکوں کے مابین سودا بازی ہوتی تھی۔ انیسویں صدی کے آواخر میں لکھی گئی ایک کتاب میں بتایا گیا ہے کہ جب گاہک آتا تو بعض اوقات خود چائے خانے کی مالکہ اس کا خیر مقدم دروازے پر آ کر کرتی تھی۔ وہ اسے اندر لے جاتی اور پوچھتی کہ اس کے ذہن میں کونسا خاص چکلہ تھا۔ گاہک کسی خاص لڑکی کا نام بتاتا جس میں وہ ترجیحاً ملنا چاہتا تھا۔ جب یہ نکات طے ہو جاتے تو خادمہ اسے چکلے میں لے جاتی ، جہاں وہ ضروری بات چیت کرتی۔ اس کے بعد محفل ناؤ نوش ہوتی، جوکہ اس تقریباتی عمل کا لازمی حصہ تھی ۔ اس دوران خادمہ گاہک کی منتظر رہتی۔ آخرکار وہ اسے خواب گاہ تک لے جاتی ، جہاں وہ اس وقت تک رہتی جب تک گاہک کی ”لیڈی فرینڈ” پہنچ جاتی ۔ اس کے آنے پر خادمہ وہاں سے چلی جاتی تھی۔
بعض طوائفیں ایسی ہوتی تھیں جنہیں شیر خواری کی عمر ہی میں چکلوں کے مالکوں نے ان کے والدین سے خرید لیا ہوتا تھا اور اپنی غرض کے لیے انہیں پڑھایا اور تربیت دلائی ہوتی تھی۔ بعض لڑکیاں ایک مخصوص مدت کے لیے طوائف بن جاتی تھی اور اس کی قیمت وصول کرتی تھیں۔
مے ہیو نے جسم فروشی کے حوالے سے لکھی گئی اپنی مشہور کتاب میں لکھا ہے: ” کچھ والدین اپنی بیٹیوں کو جسم فروشی کی تربیت دلواتے تھے۔ ایسی لڑکیاں کچھ عرصے تک طوائف رہتی تھیں اور بعد ازاں دوبارہ معمول کی زندگی میں لوٹ آتی تھیں۔ جن گھروں میں لڑکیاں جسم فروشی کرتی تھیں وہ موسیقی سے گونجتے رہتے تھے۔ ایک سیاح کو جیڈو میں بتایا گیا کہ یہاں ایک ایسا معبد ہے جہاں 600 عورتیں جسم فروشی کرتی ہیں۔
اتنی کثیر تعداد کے باوجود نوجوان گاہوں کو رات کے وقت اس وجہ سے لوٹا دیا جاتا تھا کہ سب کمرے بھرے ہوتے تھے۔ گولوونن نے چکلوں والے علاقے کی گلیوں سے گزرتے ہوئے بیشمار لڑکیوں کو دروازوں پر کھڑے دیکھا۔ ان میں سے بعض بہت کم عمر تھیں۔ وہ اتنی خوبصورت ہوتی تھیں کہ یورپ کے باشندوں کی نگاہوں کو بھی خیرہ کرتی تھیں ۔
(Henry Mayhew, London Labour and The London Poor, Griffin, Bohn & Co, London, 1862, P.139)
کتاب ” The Nightless City” کا مصنف لکھتا ہے: ”ان لوگوں کی بے رحمی اور سنگدلی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ہر رات بے چاری لڑکیوں کو ننگا کر کے کوڑے مارا کرتے تھے۔ وہ ان ننگی لڑکیوں کے کپڑے رات کے وقت اپنے گدے کے نیچے چھپا دیتے تھے تاکہ وہ لڑکیاں فرار نہ ہو سکیں۔ چکلوں کے مالکان سے جب ان لڑکیوں کا سودا ہونا ہوتا تو انہیں کرائے پر لیے گئے اچھے کپڑے پہنا دئیے جاتے تھے تاکہ وہ بظاہر اچھی نظر آئیں اور انہیں زیادہ قیمت پر بیچا جا سکے۔ دونوں فریقوں میں اس طرح مول تول ہوتا جیسے مچھیرا اور کوئی گھریلو عورت مچھلیوں پر مول تول کرتے ہیں۔ زیگن کی کوشش ہوتی تھی کہ چکلے کے مالکان سے جتنا زیادہ رقم ممکن ہو اینٹھ لے جبکہ چکلے کے مالکان کم سے کم رقم میں سودا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔“
چکلوں کو شہر کے خاص حصوں میں محدود رکھنے کا قانون سترہویں صدی کے شروع میں نافذ کیا گیا تھا۔ سب سے پہلے جس شہر میں اس قانون پر عملدرآمد کروایا گیا وہ یڈو تھا۔ بدنام زمانہ یوشی وارا یعنی چکلوں والے علاقے وجود میں آئے تھے۔ ہر شہر میں یوشی وارا ہوتا تھا، جو کہ امریکی شہر کے ”ریڈ لائٹ‘ علاقے کے مماثل ہوتا تھا۔
تاہم یوشی وارا کی سب سے زیادہ بدنام خصوصیت طوائفوں کی ” پنجروں“ میں نمائش تھی۔ ان ” پنجروں کی لمبائی چوڑائی اور بناوٹ سے اس چکلے کے درجے کا اظہار ہوتا تھا، جس سے کہ وہ طوائفیں منسلک ہوتی تھیں۔ ابتدائی زمانے میں چکلوں کے پانچ درجے ہوتے تھے۔ سب سے سستی قسم کے چکلوں کے پنجرے اتنے چھوٹے ہوتے تھے کہ طوائفوں کو ان میں لیٹنا پڑتا تھا۔ اس کے برعکس اونچے اور کھلی سلاخوں والے پنجروں میں اعلیٰ درجے کی طوائفیں بند ہوتی تھیں۔ 1872ء سے چکلوں کی قسمیں تین ہو گئیں۔
دن کے وقت پنجرے خالی رہا کرتے تھے۔ رات ہوتے ہی سجی سنوری طوائفوں کو ان میں بند کر دیا جاتا تھا۔ ایک طوائف اس وقت تک پنجرے میں بند رہتی جب تک کوئی گاہک اسے پسند نہ کر لیتا یا یہ واضح نہ ہو جاتا کہ اس رات کوئی گاہک آنے کی توقع نہیں ۔
1899ء میں ان پنجروں پر پابندی لگا دی گئی۔ پابندی سے پہلے ” دی نائٹ لیس سٹی“ کے مصنف نے لکھا کہ ان پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ ”نوجوان ان سجی سنوری طوائفوں کو ان پنجروں میں دیکھ کر بہک جاتے ہیں اور چکلوں میں آنے جانے لگتے ہیں” ۔ تاہم یہ تو انسانی فطرت ہے جو نوجوانوں یا بالغوں کو چکلوں کی طرف لے جاتی ہے۔ محولہ بالا کتاب کا مصنف لکھتا ہے: ” پنجروں پر پابندی کا مطلب یہ ہوگا کہ لوگ اب سیدھے چکلوں میں جائیں گے۔“
طوائف کا رہن سہن اس درجے پر منحصر ہوتا ہے، جس سے وہ تعلق رکھتی ہواس کے علاوہ جتنی رقم وہ چکلے کے مالکوں کو رہائش کے بدلے دے سکتی ہے اس پر بھی اچھی رہائش کا انحصار ہوتا تھا۔ یوشی دارا کی ”سٹار“ یعنی اعلیٰ درجے کی طوائفوں کے اپنے کمرے ہوتے تھے۔ کمتر درجے کی طوائفیں ایک بڑے کمرے میں اکٹھی رہتی سوتی تھیں اور جب ایسی کسی طوائف کا گاہک لگ جاتا تو وہ اسے ایک کوٹھڑی میں لے جاتی تھی۔ ایک نامعلوم مصنف اپنی کتاب ”نوٹس آن دی ہسٹری آف دی یوشی وارا آف پیڈو ” میں لکھتا ہے کہ بعض پست ترین چکلے ایسے ہوتے تھے کہ جن میں رہنے والی سب طوائفیں ایک ہی کمرے میں اپنے گاہکوں کی ہوس پوری کرتی تھیں ۔
دی نائٹ لیس سٹی“ کا مصنف لکھتا ہے کہ اعلیٰ درجے کی طوائفیں مہنگے لباس پہنتیں اور ان کی ذاتی خادمائیں ہوتی تھیں۔ وہ ایک ناول سے اس درجے کی ایک طوائف کا احوال نقل کرتا ہے:
” اس کے لباس کی خوبصورتی بیان سے باہر تھی۔ اس نے ایک لمبا ریشمی لبادہ پہنا ہوا تھا۔ اس نے بالوں میں کچھوے کے خول سے بنائے گئے قیمتی کلپ لگائے ہوئے تھے۔ وہ اتنی خوبصورت تھی کہ اس کے چہرے پر صرف ایک نظر ڈالنے والے کی جان گویا نکل جاتی …. اس بیان سے اس کے گھر کی صفائی فرنیچر کی با ذوق سجاوٹ اور اسکی ذاتی خوبصورتی کا تصور بخوبی کیا جا سکتا ہے۔”
حكام وقتاً فوقتاً طوائفوں کے لباسوں کے حوالے قوانین نافذ کرتے رہتے تھے، جس کے نتیجے میں زرق برق لباسوں کی جگہ سادہ لباس استعمال ہونے لگے تھے۔ دی نائٹ لیس سٹی“ کا مصنف لکھتا ہے کہ انیسویں صدی کے اوائل میں” یہ وحشیانہ چمک دمک اپنے عروج کو پہنچ گئی تھی۔ کریپ، مخمل، منقش ساٹن ، سادہ ساٹن، ہبیوٹی وغیرہ کے ملبوسات عام استعمال ہونے لگے تھے۔ ہر طوائف اپنے ذوق کے مطابق ملبوسات کے رنگوں اور ڈیزائنوں کا انتخاب کرتی تھی اور سب اور سب کے لباس اس حوالے سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتے تھے۔“ اس زمانے میں ” کسی طوائف کو چکلے میں اپنی حیثیت سے کمتر لباس پہننے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ تاہم موجودہ زمانے میں طوائفوں کو اپنی مرضی سے لباس پہننے کی اجازت دے دی گئی ہے”۔
بعض کم درجے والی حماموں سے وابستہ ہوتی تھیں یہ حمام بھی حقیقت میں چکلے ہوتے تھے حمام تو صرف ایک خوش نما نام ہوتا تھا ۔ان حماموں میں لڑکیاں یا نوجوان عورتیں مالشی ہوتی تھیں۔ یہ لڑکیاں بہت خوبصورت ہوتی تھیں اور باقاعدہ چکلوں میں بیٹھنے والی طوائفوں کی رقیب ہوتی تھیں۔
” دی نائٹ لیس سٹی“ کا مصنف لکھتا ہے کہ یوشی وارا کی سب سے کم درجے والی طوائفیں دروازے کے سامنے لیٹی راہگیروں کو گناہ کی دعوت دیتی رہتیں۔ کوئی گاہک لگ جاتا تو وہ انہیں اندر بلا کر دروازہ بند کر لیتیں۔ چند ہی منٹ بعد دروازہ کھل جاتا اور گاہک اپنی ہوس مٹا کر چلا جاتا۔ یہ سلسلہ ساری ساری رات جاری رہتا۔ گاہک وقفے وقفے سے آتے، معمولی سا معاوضہ ادا کرتے اور اپنی جنسی بھوک مٹا کر چلے جاتے۔
بیسویں صدی کے اوائلی عشروں میں یوشی وارا کی مقبولیت کم ہونا شروع ہو گئی تھی۔ اس زوال کی کافی حد تک وجہ وہ پابندیاں تھیں جو طوائفوں پر لگا دی گئی تھیں۔ انہیں کھلی کھڑکیوں میں بیٹھ کر اپنا آپ دکھانے پر پابندی لگا دی گئی تھی، جس سے یوشی وارا کی مقبولیت پر کافی اثر پڑا۔ تاہم دوسرے ملکوں کی طرح جاپان میں بھی اس کی سب سے بڑی وجہ غیر پیشہ ور جسم فروش لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ تھا۔ موجودہ زمانے میں عمومی طور پر جسم فروشی پر سخت پابندیاں عائد ہیں۔ اب چکلوں پر پابندی ہے۔ پیشہ ور طوائفوں کو رجسٹریشن کروانی پڑتی ہے۔ جنسی بیماریوں میں مبتلا طوائفوں پر علاج لازمی کروانے کی پابندی عائد ہے۔ ٹوکیو کے یوشی وارا کچھ عرصہ پہلے ہی بند ہو چکے ہیں۔
مشرق قریب کے دوسرے ملکوں میں سنگا پور کے چکلے بہت بدنام ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں بھی مالے سٹریٹ میں 500 چکلے تھے اور ہر چکلے میں آٹھ سے تیس تک طوائفیں دھندا کرتی تھیں۔ یہ طوائفیں چکلوں کی بالکونیوں میں کھڑی ہو کر اپنے جسموں کی نمائش کرتی تھیں ۔ ”دی وائٹ سیلیو مارکیٹ“ کے مصنفین لکھتے ہیں: “سہ پہر تین بجے سے لے کر رات دس بجے تک سجی سنوری طوائفیں بالکونیوں میں بیٹھی چائے کی چسکیاں لیتے، سگریٹ پیتے ہوئے راہگیروں کو اندر آنے کے بلاوے دیتی رہتی ہیں۔“
(Mrs. Archibald Mackirdy and W.N.Willis, The White Slave
Market, Stanley Paul, London, N.D, P.123)
” یہاں ہر مشرقی ملک کی طوائف دکھائی دیتی ہے۔ سنگا پور آنے والا کوئی سیاح ایسا نہیں
ہوتا، جو مالے سٹریٹ جا کر ہر قومیت کی ان “شوویمن” کو دیکھنے کا نہیں سوچتا ہوں۔“
قدیم چین میں جسم فروشی کو شرمناک نہیں سمجھا جاتا تھا۔ طوائفوں کو قدیم یونان کی ہیتاریوں جیسی قدر و منزلت حاصل ہوتی تھی۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چین میں طوائف کا یہ مقام پڑوسی ملک جاپان کے برعکس، ختم ہوتا گیا اور زمانہ ایسا آیا کہ طوائفوں کو نفرت اور کراہت کے ساتھ دیکھا جانے لگا۔ مزید برآں ایسا شاذ ہی ہوتا کہ چکلوں میں کام کرنے والی طوائفیں معزز معاشرے میں دوبارہ شامل ہو سکیں۔
چین میں عام چکلوں کے علاوہ ایک خاص قسم کے چکلے ہوتے تھے جو کہ چین کی انفرادی خصوصیت تھے۔ یہ پھولوں والی کشتیاں ہوتی تھیں۔ خاص طور پر کینٹن کی پھولوں والی کشتیوں نے طوائف پرست مردوں میں بے پناہ مقبولیت حاصل کر لی تھی۔
پرانے زمانوں میں یہ ایک آفاقی رسم ہوتی تھی کہ جو والدین اپنی بیٹیوں سے نجات پانے کے خواہش مند ہوتے تھے وہ انہیں پیدا ہوتے ہی یا کمسنی میں چکلوں کے مالکان کے ہاتھ فروخت کر دیتے تھے۔ چکلوں کے مالک ان لڑکیوں کو جسم فروشی کے فن (ART) کی ترغیب دیتے تھے۔ جاپان کی طرح جب چین میں بھی قابلِ فروخت یا عمومی طریقوں سے جسم فروشی پر آمادہ کر لی جانے والی لڑکیوں کی رسد کم ہو جاتی تو انہیں اغوا کر کے لایا جاتا تھا۔ یہ روایت صدیوں تک برقرار رہی۔ ایس۔ ویلز ولیمز کہتا ہے: ” چین میں چکلے خشکی پر اور پانی پر ہر جگہ موجود ہیں۔ یہاں کسی لڑکی کو تنہا دوسری جگہ بھیجنے میں خطرہ یہ ہوتا ہے کہ اس اغواء کرکے جہنم کے ان دروازوں میں نہ دھکیل دیا جائے۔“
(S.Wells Willians, The Middle
Kingdom, Wiley of Putnam, Newyork, 1858, Vol iii, P.96)
ہانگ کانگ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ وہاں موجود چکلوں میں دھندا کرنے والی تمام طوائفیں کم عمر ہوتی ہیں۔ ” انہیں تیرہ یا چودہ سال کی عمر میں ہانگ کانگ لایا جاتا ہے اور ان کی دوشیزگی ختم کرنے کا بھاری معاوضہ وصول کیا جاتا ہے۔ یہ رقم چکلے کے مالک کے قبضے میں چلی جاتی ہے۔ کسی اعلیٰ درجے کے چینی چکلے میں چوبیس سال سے زیادہ عمر کی لڑکی کو بالکل بھی نہیں رکھا جاتا۔ اس عمر کو پہنچنے پر اگر ان کی شادی نہیں ہو گئی ہو تو ان کے والدین انہیں واپس لے جاتے ہیں۔ پھر ان کے ساتھ کیا گزرتی ہے یہ کسی کو معلوم نہیں ہے۔ شاید وہ ہیئر ڈریسر، گھریلو خادمہ یا کسی دوسرے چکلے میں طوائف بن جاتی ہوں۔
(Corresponding Respecting The Alleged Exictence of Chinese Slavery in Hong Kong)
چکلوں میں دھندا کرنے والی طوائفوں کو شاذ ہی کوئی اجرت دی جاتی تھی۔ جن چکلوں میں انہیں کچھ اجرت دی بھی جاتی تھی وہاں خوراک اور لباس کی مد میں ان کی ساری کمائی چھین لی جاتی تھی بلکہ انہیں ہمیشہ چکلے کے مالکوں کا مقروض رکھا جاتا تھا۔ یہ کہانی بہت ہی پرانی ہے اور ہر اس ملک میں پائی جاتی ہے جہاں چکلے پائے جاتے ہیں۔
2 نومبر 1866ء کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے: ” ہانگ کانگ کے ہر چکلے میں عورتوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ انہیں جھانسا دے کر ہانگ کانگ لایا جاتا ہے اور چکلوں کے مالکان کے ہاتھ فروخت کر دیا جاتا ہے۔ ان کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے اور انہیں بری طرح خوفزدہ کر دیا جاتا ہے کہ وہ پولیس سے شکایت نہیں کر سکتیں۔ وہاں ان کا نہ کوئی رشتہ دار ہوتا ہے نہ دوست، جو کہ مدد کرے اور وہ اس غلیظ دھندے کی دلدل میں دھنس جاتی ہیں۔ وہ خاموشی کے ساتھ اپنے آقاؤں کے احکامات بجا لاتی ہیں۔ تاہم ایسے بھی واقعات ہوئے ہیں کہ جن میں کچھ لڑکیاں چکلوں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں اور انہوں نے خود کو پولیس کی حفاظت میں دے دیا۔ پولیس شواہد نہ ہونے کی وجہ سے چکلوں کے مالکان کے خلاف کچھ نہیں کر سکتی تھی کیونکہ لڑکیاں کھلی عدالت میں بیان دینے سے ڈرتی تھیں۔“
ہانگ کانگ کے چکلوں میں چین کے علاوہ دوسری قومیتیوں کی لڑکیاں بھی پائی جاتی تھیں۔ “دی وائٹ سلیو مارکیٹ“ کے مصنفوں کے بقول ” گیج سٹریٹ اور لینڈ ہرسٹ ٹیرس، سے ہر سال سینکڑوں امریکی لڑکیاں گزرتی ہیں۔ اگر وہ وہاں رہ جاتی ہیں تو جب ان کا شباب رخصت ہو جاتا ہے اور وہ شراب اور منشیات کی عادی ہو جاتی ہیں تو ٹکن روڈ کا چینی علاقہ ان کی آخری منزل ہوتا ہے۔ اس علاقے میں تقریباً تین سو چکلے موجود ہیں اور ہر چکلے میں ہر رنگ، نسل اور عقیدے کی ایک درجن سے بیس تک بدقسمت لڑکیاں ہوتی ہیں”۔
چین میں گلیوں میں گھوم پھر کر جسم فروشی کرنے والی اور چکلوں میں دھندا کرنے والی طوائفوں کے طبی معائنے کا نظام کبھی رائج نہیں رہا اس کا نتیجہ یہ رہا کہ بیماریاں عام تھیں۔
بہت سے مستند مصنفوں نے لکھا ہے کہ چین میں جسم فروشی کے پھیلاؤ میں افیون نوشی کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ اسی طرح جنسی کجرویاں بھی افیون نوشی کے سبب عام تھیں۔ لائبر میں لکھتا ہے کہ افیون کے عام ہونے سے پہلے ہم جنس پرستی بھی عام نہیں تھی۔ چین میں مشہور ہو گیا تھا کہ افیون شہوانی قوت میں اضافہ کرتی ہے۔ اس کا کسی حد تک جواز بھی تھا کہ کیونکہ یہ نشہ آور شے بلاشبہ جنسی بھوک کو بھڑکاتی ہے۔ تاہم اس کا نقصان یہ ہوتا تھا کہ افیون جنسی بھوک کو اتنا بھڑکا دیتی کہ نارمل طریقوں سے اسے آسودہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ افیون نوش کجروی کا شکار ہوجاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ چین میں مردانہ جسم فروشی بہت عام تھی۔ جسم فروش لڑکے بہت مشہور ہوتے تھے۔
موجودہ زمانے میں “سرخ چین” میں جسم فروشی کے واقعات کے حوالے سے قابلِ اعتماد سرکاری اعداد و شمار کا شمار ناممکن ہے۔ تاہم شنگھائی اب برائی کا مترادف نہیں رہا جبکہ کمیونسٹ حکام شہوانیت دشمن ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔
چینی انقلاب کے فوری بعد ہونے والی اصلاحات کے تحت کسی لڑکی کو اس کی مرضی کے خلاف جسم فروشی کے دھندے میں لانے پر پابندی لگا دی گئی۔ جسم فروشی کے لیے لائسنس لینا پڑتا ہے اور اسے صرف ایسی لڑکی کو دیا جاتا ہے جو خود اس خواہش کا اظہار کرے کہ وہ طوائف بننا چاہتی ہے۔
تاہم یہ قانون عملاً اتنا مؤثر نہیں ہے کیونکہ چکلوں کے مالکان لڑکی کا ایک فوٹو اور اس کا دستخط شدہ بیان جمع کروا کر لائسنس حاصل کر لیتے ہیں۔ اس بیان میں لڑکی طوائف بننے کی اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے کہ چکلے کا مالک اس کے کہنے پر درخواست دے رہا ہے۔ ایسا بہت ممکن ہے کہ لڑکی خود طوائف بننا نہیں چاہتی ہو اور صرف اپنے والدین یا چکلے کے مالکان کے احکامات کی تعمیل کر رہی ہو۔
The End
_________________________________