جسم فروشی کی تاریخ – Part 5

امریکہ میں جسم فروشی


      .

امریکہ کے سرحدی علاقوں کے حوالے سے کہانیاں اور حقائق پڑھنے والے سب لوگ ”گے لیڈیز”(Gay Ladies) سے واقف ہیں،جو مغرب میں ہر دیہات اور کان کنوں کے ہر کیمپ میں دکھائی دیتی ہیں۔ اس زمانے میں جن علاقوں میں غیر مہذب آدمی شراب نوشی کرتے اور لڑتے جھگڑتے زندگی بسر کرتے تھے۔ ان علاقوں میں چند ایک ہی معزز عورتیں ہوتی تھیں۔ ان علاقوں میں مردوں کی تعداد عورتوں سے زیادہ تھی اور نتیجتاً اصناف کے اس عدم تناسب کی وجہ سے جسم فروشی نے دوسری کمیونٹیوں کے مقابلے میں یہاں بہت زیادہ فروغ پایا۔ یہاں قانون ضابطے کوئی نہیں ہوتے تھے اور جسم فروش عورتیں کھلم کھلا دھندہ کرتی تھیں۔

مشرق کے شہروں اور دیہاتوں میں صورتحال بہت مختلف اور کافی حد تک یورپ سے مشابہہ تھی۔ یہاں جسم فروشی کی کڑوی گولی پر کھانے کے قابل میٹھے کی تہہ چڑھانے کی کوششیں کی جاتی رہتی تھیں۔ مختلف ریاستوں میں صورتحال مختلف تھی تاہم جسم فروشی کو دبانے کی اکا دکا کوششوں کے علاوہ اس کو قابل برداشت تسلیم کر لیا گیا تھا اور بیشتر شہروں میں ”پارلر ہاؤسز” کھلے ہوئے تھے جہاں جسم فروشی کا دھندہ ہوتا تھا۔

امریکہ کے ”پارلر ہاؤسز” حقیقت میں چکلے ہوتے تھے۔ انیسویں صدی کے ابتدائی اور درمیانی عشروں میں صرف اعلیٰ ترین درجے کے پارلر ہاؤس ہوا کرتے تھے۔ ان میں دھندہ کرنے والی لڑکیاں بہت خوبصورت نہایت خوش لباس، تعلیم یافتہ ہوتی تھیں۔ یہ “پارلر ہاؤسز” بہت مہنگے ہوتے تھے اور منتخب لوگ ہی ان کے گاہک ہوتے تھے۔ تاہم رفتہ رفتہ ہر چکلے کو ”پارلر ہاؤس” کہا جانے لگا اور بیسویں صدی کے آتے آتے طوائفوں کے معاوضوں میں فرق کی بنیاد پر پارلر ہاؤسز کی بھی قسمیں ہو گئیں۔ یوں فہرست میں سب سے اوپر دس یا بیس ڈالر والے چکلے تھے اور سب سے نیچے 50 سینٹ والے۔

چکلا کسی بھی قسم کا ہوتا، اصول ایک ہی ہوتا تھا۔ ایک پارلر ہاؤس میں انچارج عورت اور نوکروں کے علاوہ صرف طوائفیں رہتی تھیں، جن میں سے ہر ایک کا اپنا کمرہ ہوتا تھا۔ تمام طوائفیں متعینہ وقت پر جمع ہو جاتی تھیں۔ اس وقت گاہک بھی جمع ہو جاتے تھے۔ یہ طوائفیں گاہکوں کی تلاش میں کبھی گلیوں میں نہیں پھرتی تھیں۔ گاہک خود ہی پارلر ہاؤس آتے اور اپنے لیے ساتھی کا انتخاب کر لیتے ۔ تاہم پارلر ہاؤسز کے مالکان گاہکوں کو بہت سے فحش طریقوں سے متوجہ کرتے تھے۔

 ان کے ایجنٹ کمیشن پر گاہک ڈھونڈتے تھے۔ ان میں ہوٹلوں کے پورٹر، شوفر، بارٹینڈر اور ایسے ہی دوسرے لوگ شامل ہوتے تھے۔ یہ ایسے لوگ تھے جنہیں مردوں سے ملنے کے معمول سے زیادہ مواقع دستیاب تھے۔ پارلر ہاؤس کی طوائفوں کا ہفتے میں ایک بار طبی معائنہ ہوا کرتا تھا۔ ہر طوائف کو جسم فروشی سے حاصل ہونے والی رقم کا عموماً 50 فیصد حصہ ملتا تھا۔ بعض چکلوں میں پیتل کے سکوں اور بعض میں پنچ کارڈ کا نظام رائج تھا۔

امریکی تہذیب کے ابتدائی زمانے میں طوائفیں امریکی نژاد ہوا کرتی تھیں جو کہ اولین آبادکاروں کی اولاد تھیں۔ تاہم جب عظیم الشان امریکی جمہوریہ کی کشش دور و نزدیک پھیلی تو یورپ سے بیشمار لڑکیاں قسمت آزمائی کے لیے وہاں جانے لگیں اور یوں چکلوں میں غیر ملکی لڑکیوں کا اضافہ ہونے لگا۔ مقامی لڑکیوں کے مقابلے میں غیر ملکی لڑکیوں کو ورغلانا ہمیشہ زیادہ آسان رہا ہے۔ اس کے علاوہ چکلوں کے مالک اس امر کو اپنے لیے زیادہ محفوظ بھی پاتے ہیں کہ مقامی کی بجائے غیر ملکی لڑکیوں سے دھندا کروایا جائے۔

 یہ برائی کے تاجر اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ اگر مقامی لڑکیوں سے جسم فروشی کروائی جائے تو حکومت، برائی کے خلاف کام کرنے والی سوسائیٹیاں اور عام لوگ شہروں کو برائیوں سے پاک کرنے کے لیے زیادہ متحرک ہو جاتے ہیں جبکہ غیر ملکی لڑکیاں اس ظلم کا نشانہ بنیں تو ان کا ردعمل زیادہ سخت نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ چکلوں میں آنے والے مرد مقامی لڑکیوں کی نسبت دوسری قوموں کی لڑکیوں میں زیادہ کشش پاتے ہیں۔ یہ بات کرۂ ارض کے ہر ملک کے طوائف پرستوں پر صادق آتی ہے۔

ایک ایسی غیر ملکی لڑکی جرائم پیشہ لوگوں کا آسان شکار ہوتی ہے جو کہ انگلش سے زیادہ واقف نہیں ہو اور اجنبی ملک کے طور طریقوں سے نا آشنا ہو۔ چکلوں کے مالک ایسی لڑکیوں سے لباس کی بہت زیادہ قیمتیں، طبی معائنے کی زیادہ فیسیں اور دیگر اشیاء کے دام بہت زیادہ وصول کرتے تھے۔ یہ سب رقوم طوائف لڑکی کے حساب میں درج کر لی جاتی تھیں اور اس کی آمدنی سے کاٹ لی جاتی تھیں۔ نتیجہ یہ نکلتا کہ وہ ہمیشہ چکلوں کے مالکوں کی مقروض رہتی تھیں۔ ان لڑکیوں کو ڈرانا دھمکانا بھی آسان ہوتا تھا۔ وہ امریکی قانون سے بھی واقف نہیں ہوتی تھیں۔ چکلوں کے مالکان انہیں ڈرائے رکھتے تھے کہ فرار کی صورت میں  انہیں قید کر کے جیل میں بند کر دیا جائے گا۔

بعض اوقات ان غیر ملکی لڑکیوں کو جسم فروشی کے لیے باقاعدہ طور پر درآمد کیا جاتا تھا۔ ایسی بیشتر لڑکیاں اپنے ملکوں میں پہلے ہی سے اس پیشے سے وابستہ ہوتی تھیں تاہم کچھ لڑکیوں کو زیادہ اجرتوں والے کاموں اور بہتر ملازمتوں کا جھانسا دے کر بھی امریکہ لایا جاتا تھا۔ 1909 ء میں امریکی امیگریشن کمیشن نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں ایسا ہی ایک کیس درج تھا۔ شکاگو میں واقع ایک چکلے پر مارے گئے چھاپے میں ایک ایسی فرانسیسی لڑکی بھی بازیاب ہوئی ہے جس کو 14 سال کی عمر میں امریکہ لایا گیا تھا۔ اس کو لانے والے نے اسے جھانسا دیا تھا کہ وہ ایک معزز عورت کی ملازمہ بنائی جائے گی اور اسے فرانس سے زیادہ اجرت ملے گی۔اسے امریکہ لانے والے شخص نے اسے شکاگو کے ایک چکلے کو فروخت کر دیا تھا۔“

(Report on Importing Women For Immoral Purposes, Washington, 1909, P.15)

بعض اوقات ان لڑکیوں کے درآمد کنندگان انہیں بیوی بنا کر امریکہ لے آتے تھے۔ اس کے علاوہ جرائم پیشہ لوگ اپنی رشتے دار لڑکیوں کو بھی امریکہ لا کر چکلوں کو فروخت کر دیتے تھے۔ اکثر جاپانی لڑکیوں کی شادیاں ان کے ملک کی روایت کے مطابق مرد کی غیر موجودگی میں کر دی جاتی تھیں اور وہ ان سے ملنے کے لیے امریکہ

آتی تھیں لیکن جسم فروشوں کے ہتھے چڑھ جاتی تھیں۔

تاہم چکلوں میں لائی جانے والی تمام لڑکیوں کو درآمد نہیں کیا گیا ہوتا تھا۔ عورتوں کے تاجر اس حقیقت سے خوب آگاہ تھے کہ یورپ کے ہر حصے سے امریکہ میں سیلاب کی طرح آنے والے تارکین وطن میں سے جسم فروشی کے لیے موزوں لڑکیوں کو اچک لینا بہت آسان ہے۔ شکاگو کے ڈسٹرکٹ اٹارنی ایڈون ڈبلیوسمز نے محولہ بالا رپورٹ میں اس حوالے سے انکشاف کرتے ہوئے کہا:

” اس گندی تجارت میں ملوث لوگ کینیڈا میں اس مقام پر موجود ہوتے ہیں، جہاں بہتر کام کی تلاش میں نکلنے والے تارکین وطن آکر ٹھہرتےہیں۔ انسانوں کے یہ شکاری تارکین وطن کے ہجوم میں ایسی لڑکیوں کو تاڑتے ہیں جن کے ساتھ ماں باپ بھائی یا کوئی دوسرا رشتے دار نہ ہو۔ ایسی کوئی لڑکی نظر آجاتی تو ایک شخص اس کے پاس جاتا اور اس کی زبان میں اس سے ہم کلام ہوتا۔ جلد ہی وہ اسے اچھی اجرت پر ملازمت کی پیشکش کر دیتا۔وہ اسے اپنے خرچ پر منزل تک لے جانے کی پیشکش بھی کرتا۔ جن کاموں کی پیشکش کی جاتی تھی ان میں زیادہ تر لانڈری ، مٹھائی کی دکان یا کسی فیکٹری کی ملازمت شامل ہوتی تھی۔

 شکاری کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ لڑکی کو اکیلا اپنے ساتھ لے جانے میں کامیاب ہو جائے۔ اس کے بعد واحد کام اس کی تباہی کے مختصر ترین راستے پر تیزی سے نکل پڑنا ہوتا تھا۔ جب وہ زیادہ پیسوں، اچھے کپڑوں اور شادی وغیرہ کے جھوٹے وعدوں کے باوجود جال میں نہ پھنستی تو پھر سخت ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے تھے۔ بعض اوقات شکاری اپنے شکار سے سچ مچ شادی کر لیتے تھے۔ اکثر اوقات شکار کی مزاحمت کم کرنے کے لیے نشہ آور دوائیں استعمال کی جاتی تھیں۔ جبکہ بعض اوقات بہت زیادہ تشدد سے بھی کام لیا جاتا تھا۔”

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ خوبصورت لڑکیوں کی قیمتیں بھی بہت زیادہ ادا کی جاتی تھیں۔ فرانس سے امریکہ لائی گئی طوائف کی قیمت عموماً 500 ڈالر ہوتی تھی۔ جسم فروش کا دھندا نہ کرنے والی معصوم نوجوان لڑکیوں کو اس سے بھی زیادہ قیمت ادا کر کے خرید لیا جاتا تھا۔ 1908 ء میں شکاگو میں واقع چکلے ڈوفر ہاؤس میں، چھاپے میں جو دستاویزات برآمد ہوئیں، ان سے معلوم ہوا کہ چکلے کے مالک ڈوفر نے ایک غیر معمولی حد تک خوبصورت لڑکی کے 1000 ڈالر ادا کئے تھے۔ سیئیٹل میں جاپانی لڑکیاں چار چار سو ڈالر میں خریدی گئیں ۔ چینی لڑکیاں جن کو درآمد کرنا زیادہ مشکل تھا، دو سے تین ہزار ڈالر فی لڑکی کے حساب سے خریدی گئی تھیں۔

یہ سچ ہے کہ بہت سی ریاستوں میں پارلر ہاؤسز یا چکلوں پر پابندی تھی تاہم حقیقت تو یہ ہے کہ قانون ان کو ختم کرنے سے لاچار تھا۔ مقامی حکام نے عورتوں کی تجارت کرنے والوں کی طرف سے آنکھیں بند کر رکھی تھیں جبکہ عام لوگ اس پرانی رائے کے تحت حکام کی تائید کرتے تھے کہ چکلے نہیں ہوں گے تو معزز عورتوں سے زنا بالجبر کئے جانے کے خطرات زیادہ ہوں گے۔ جہاں تک پولیس کا تعلق تھا تو جرائم پیشہ لوگ اسے رشوت دے کر خاموش کرا دیتے تھے۔

تاہم جسم فروشی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے کوئی مستقل طریقہ نہیں تھا۔ مستقل رویہ صرف یہ تھا کہ اس برائی کو برداشت کیا جائے ۔ کچھ شہروں میں طوائفوں کو الگ تھلگ واقع ”ریڈ لائٹ” علاقوں تک محدود کر دیا گیا تھا اور ان کے طبی معائنے کا نظام بھی موجود تھا۔ تاہم دوسرے شہروں میں طوائفوں کو عام آبادی سے الگ رکھنے یا ان کا طبی معائنہ کروانے کا کوئی قانون نہیں تھا۔

امریکہ میں جسم فروشی 1870ء میں عروج کو پہنچ گئی اور بیسویں صدی کے پہلے عشرے تک پوری آب و تاب کے ساتھ موجود رہی۔ خاص طور پر شکاگو میں اس عرصے کے دوران جسم فروشی عام رہی۔ ساؤتھ سٹریٹ، ساؤتھ ڈئیر بورن سٹریٹ اور دوسرے ایسے ہی علاقوں میں ہر قسم اور درجے کے چکلوں کی بہتات تھی۔ جس زمانے میں شکاگو میں پہلا ورلڈ فئیر منعقد ہوا تھا۔ ایک سابق سراغرساں کلفٹن آر۔ وڈرج نے زمانے کے کٹم ہاؤس پلیس (جسے بعد ازاں فیڈرل سٹریٹ کا نام دے دیا گیا تھا) کے بارے میں لکھا:

” یہاں سارا دن نیم عریاں عورتیں، فحش زبان بولتی ہوئیں، کھڑکیوں میں بیٹھی اپنی نمائش کرتی رہتی ہیں۔۔۔۔۔  یہاں بیک وقت 50 سے لے کر 100 تک عورتیں کھڑکیوں میں بیٹھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس علاقے میں ہر قومیت کی عورت رہتی ہے۔ جن میں سفید فام اور سیاہ فام عورتیں شامل ہیں۔ ان کی عمریں 18 سے 50 سال کے درمیان ہوتی ہیں۔ ان مکانوں میں زندگی کا ہر ایسا پست اور غیر اخلاقی منظر دیکھا جا سکتا ہے جس کا کہ انسانی ذہن تصور کر سکتا ہے۔”

ان چکلوں سے بہت زیادہ منافعے کمائے جاتے تھے۔ بالخصوص اونچے درجے کے چکلوں سے۔ ساؤتھ کلارک سٹریٹ میں واقع ایک اونچے درجے کے چکلے کی بدنام زمانہ مالکہ کیری واٹسن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اس چکلے سے بے پناہ منافع کماتی تھی۔ پچیس سال چکلہ چلانے کے بعد اس نے یہ دھندا چھوڑ دیا اور ایک دولت مند عورت کی حیثیت سے زندگی بسر کرنے لگی۔ ساؤتھ ڈئیر بورن میں کرسٹوفر کولمبس کریب اور لزی ایلین نے ایک چکلہ کھولا تھا۔ بعد ازاں مشہور زمانہ ایور لیسٹرز اس کی مالک بن گئیں اور اسے ایورلی کلب کہا جانے لگا۔ اس چکلے کو امریکہ بلکہ دنیا کا سب سے زیادہ بدنام سب سے زیادہ مہنگا اور سب سے زیادہ منافع بخش چکلہ“ کہا جاتا تھا۔

(Herbert Asbury,The underworld  of  Chicago, Robert Hale

London, 1941, P.243 )

ہربرٹ ایسبری لکھتا ہے کہ شکاگو میں وینا فیلڈز کا چکلہ بھی بےحد کامیاب تھا۔ یہ اپنے دور کا سب سے بڑا چکلہ تھا۔ وینا نظم و ضبط کی سخت ضرور تھی لیکن اپنی لڑکیوں کا بہت خیال رکھتی تھی: ” وہ شکاگو کی کسی اور میڈم کے مقابلے میں انہیں ان کی آمدنی میں سے زیادہ حصہ دیا کرتی تھی۔“

چکلوں کے علاوہ سیلون بھی ہوتے تھے جہاں پیشہ ور لڑکیاں گاہک پھانستی تھیں۔ طوائفیں گلیوں سے بھی گاہک پھانس کر وہاں لایا کرتی تھیں۔ بہت زیادہ مشہور تھے ”رینز لا” ہوٹل، جو کہ چکلوں سے قدرے بہتر ہوتے تھے۔ ایسے ہوٹل کم ازکم دس خواب گاہوں پر مشتمل ہوتے تھے۔ انہیں اتوار کو شراب بیچنے کی بھی اجازت ہوتی تھی۔ ان ہوٹلوں میں زیادہ تر طوائفیں رہا کرتی تھیں۔

تاہم رفتہ رفتہ تبدیلیاں رونما ہو گئیں۔ عوام اس برائی کے کھلے عام فروغ پر مشتعل ہونے لگے۔ نام نہاد ”سفید فام غلاموں ” کی تجارت کے حوالے سے سنسنی خیز جھوٹی سچی کہانیوں کے پھیلنے سے بدنام زمانہ مان ایکٹ منظور ہوا جو 1910ء میں قانون بن گیا۔ اس قانون کے تحت لڑکیوں کا ملک کی ایک بندرگاہ سے دوسری تک لے جانا ممنوع قرار دے دیا گیا۔ جسم فروشی کے لیے کسی لڑکی کو کسی دوسری ریاست میں لے جانا ایک فوجداری جرم قرار دیا گیا اور اس کی سزا قید یا جرمانہ مقرر کی گئی۔ لڑکی مرضی سے جاتی یا زبردستی لے جائی جا رہی ہوتی، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ اس قانون میں بہت خامیاں تھیں اور اس پر سخت تنقید کی گئی۔ اس قانون کو بلیک میل کے لیے استعمال کیا جانے لگا تھا اور چونکہ معاملے میں ملوث لڑکی پر مقدمہ قائم نہیں کیا جا سکتا تھا اس لیے اس رعایت کو بلیک میلنگ کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔

تاہم عورتوں کے تاجروں کو 1919ء میں منظور ہونے والے واسٹیڈ ایکٹ سے کاری ضرب لگی۔ اس ایکٹ کے تحت پرانے پارلر ہاؤس کی جگہ کھلنے والے سیلونوں اور شراب خانوں وغیرہ کو بند کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح پولیس نے گلیوں میں دھندا کرنے والی طوائفوں پر اتنی سختی کی کہ ان کا کام کرنا بہت مشکل ہو گیا۔ اس سختی کے نتیجے میں زیادہ تر طوائفیں گلیوں سے چلی گئیں، جو بچ گئیں انہیں کام کو چلانے کے لیے بھاری رشوتیں دینا پڑتی تھیں۔

________________________________

 


Leave a Comment