جسم فروشی کی تاریخ – Part 3

عورت طوائف کیوں بنتی ہے


       .

نام نہاد اخلاقی واعظوں کے بیانات کی بنیاد پر ایک مفروضہ بہت عام ہو گیا تھا کہ طوائفیں ایسی شرم ناک زندگی گزارنے پر اس لیے مجبور ہوئی تھیں کہ وہ ایک معزز قسم کا کام حاصل نہیں کر سکتی تھیں۔ طویل عرصے سے اس مفروضے کے موجود چلے آنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔

 پہلی بات یہ ہے کہ پرانے مصنفین نے بعد میں آنے والے مصنفین کو گمراہ کیا مثلاً پیرنٹ ڈوکا ٹیلے نے لکھا : “روزگار کا نہ ملنا نیز کم اجرتیں جسم فروشی کی بنیادی وجہ ہیں” ۔ سینگر تمام طوائفوں کو “حالات کی ماری ہوئیں“ عورتیں مانتا تھا اور اس کا کہنا تھا کہ اگر انہیں موقع دیا جائے تو وہ اس پیشے کو چھوڑ سکتی ہیں۔ انگلینڈ کی طوائفوں کے حوالے سے خاص طور پر بات کرنے والا مصنف شیرویل لکھتا ہے کہ ”اخلاق تجارت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں”۔

جو شرائط سو سال پہلے لاگو ہوتی تھیں وہ اب لاگو نہیں ہوسکتیں۔ اس زمانے میں عورتوں کے لیے جو واحد معزز پیشہ میسر تھا وہ شادی تھی۔ اس کا متبادل گھریلو ملازمہ کا پیشہ تھا جو اس زمانے میں غلامی کے مترادف تھا۔ چنانچہ محنت کش طبقے کی ہزاروں عورتوں کے لیے جو اتنی خوش قسمت نہیں تھیں کہ ان کی شادی ہو جاتی، گھریلو ملازمہ کے کام کا متبادل سوائے بازار میں بیٹھنے کے اور کوئی نہیں تھا۔ جنسی ہوس کا نشانہ بننے والی گھریلو ملازماؤں کی کہانیاں اس حقیقت کو عیاں کرتی ہیں کہ کس طرح لڑکیوں نے فاقہ کشی سے بچنے کا کوئی دوسرا راستہ نہ پا کر جسم فروشی اختیار کی تھی۔

 ایسا لگتا ہے کہ پرانے مصنفوں نے اپنی تحقیق کے دوران اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا تھا کہ بازار میں بیٹھنے والی لڑکیوں کا بہت بڑا حصہ پہلے گھریلو ملازمہ کی حیثیت سے کام کرتا رہا ہے۔ سینگر بتاتا ہے کہ نیو یارک کی دو ہزار طوائفوں میں سے 933 پہلے گھریلو ملازمائیں ہوتی تھیں۔

دوسرے مصنفوں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ طوائفوں کی اکثریت کا تعلق ملازمہ کا کام کرنے والے طبقے سے ہوتا ہے۔ مل بینک جیل کا نگران میرک لکھتا ہے کہ اسے اپنی ملازمت کے دوران 53 فیصد ایسی طوائفوں سے واسطہ پڑا جو کہ گھریلو ملازمہ رہ چکی تھیں۔ شیرویل بیان کرتا ہے کہ سالویشن آرمی کے اعداد و شمار کے مطابق 88 فیصد طوائفیں گھریلو ملازمہ رہ چکی تھیں۔ انہوں نے ملازمہ کی حیثیت سے ہی جسم فروشی کا آغاز کر دیا تھا۔ Downward Paths کے نامعلوم مصنفوں نے 1916ء میں لکھا ہے کہ 830 طوائفوں میں سے 293 پہلے گھریلو ملازمہ رہ چکی تھیں ۔

ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ گھریلو ملازماؤں نے ملازمت چھوڑ کر جسم فروشی کا پیشہ اختیار کرلیا۔

 تاہم یہ تو ماضی کا حال تھا ۔ موجودہ دور میں کوئی لڑکی ملازمت بچانے میں ناکام رہنے کے بعد جسم فروشی کا پیشہ اختیار نہیں کرتی۔ رویوں میں تبدیلی کے باعث اب کسی ناجائز بچے کی ماں کو مطعون نہیں کیا جاتا۔ نیز عورت کو حاملہ ہونے سے محفوظ رکھنے والی ادویات کی عام دستیابی کی وجہ سے شادی کے بغیر حاملہ ہونے والی عورتوں کی تعداد میں کافی کمی آ گئی ہے۔

 ان سب باتوں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جسم فروشی کی بنیادی وجہ معاشی نہیں ہے۔ اس کی وجہ معاشی ہے۔ بیشتر لڑکیاں اپنی ملازمت سے وجہ سے طوائف کا پیشہ اپنا لیتی ہیں ۔ کم تنخواہ پانے والی لڑکیاں اپنے معاشی حالات میں تبدیلی کی بے پناہ خواہش مند ہوتی ہیں اور اس کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتیں۔ بعض لڑکیاں ایسے حالات میں کام کرنے پر مجبور ہوتی ہیں جو جسم فروشی جتنے ہی بدتر ہوتے ہیں۔ بعض شادی شدہ عورتوں کے حالات اتنے ذلت آمیز ہوتے ہیں کہ ایک کامیاب طوائف بھی ان سے نا آشنا ہوگی۔

انگلینڈ اور اس جیسے دوسرے تہذیب یافتہ ملکوں میں 95 فیصد طوائفیں اس  پیشے کا انتخاب ارادی طور پر کرتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس انتخاب کی وجوہات بہت سی ہوں نیز ماحول بھی اس پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جسم فروشی کے اسباب بہت سے ہیں۔ انسان کسی ایک سبب کو واحد سبب قرار نہیں دے سکتا۔ انسان کسی ایک سماجی خرابی کی نشاندہی نہیں کرسکتا کہ جس کی اصلاح اس سارے مسئلے کا حل ہو۔ تاہم لڑکیوں کو اس پیشے کی طرف مائل کرنے والا  بڑا سبب تعیش پسندی اور کاہلی ہے۔ 1957ء میں  Committee on homosexual Offences And Prostitution کے عنوان سے لندن میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے:

” ہمارا تاثر یہ ہے کہ طوائفوں کی اکثریت ایسی  عورتوں پر مشتمل ہے جنہوں نے اس پیشے کا انتخاب اس لیے کیا تھا کہ انہیں اس  میں زیادہ آسانی، زیادہ آزادی اور زیادہ نفع دکھائی دیتا تھا۔“

مذکورہ بالا وجوہات آپس میں اتنی مربوط ہیں کہ انہیں الگ الگ کرنا دشوار ہے۔ ایسی لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو آسانی، رقم اور شہرت کے لیے اپنے جسموں کو فروخت کرنے پر آمادہ ہیں۔ دکانوں پر کام کرنے والی لڑکیوں، ٹائپسٹ کورس گرلز، فیکٹری ورکروں اور تھوڑی آمدنی والے دوسرے شعبوں میں کام کرنے والی لڑکیاں جو قبول صورت بھی ہوں، ان مردوں کے ساتھ باہر جانے اور انہیں اپنا جسم سونپنے پر تیار ہوتی ہیں، جو انہیں عیش وعشرت کی اشیاء خرید کر دلوا دیں۔

بعض لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں جو اپنی آزادہ روی کی وجہ سے بدنام ہوتی ہیں اور ان میں سے بہت سی تو طوائفوں سے قریبی مشابہت رکھتی ہیں۔ شاید بیشتر سٹیج کی اداکارائیں یہ یقین رکھتی ہیں کہ ستارہ (یعنی مشہور اداکارہ) بننے کے لیے اپنا جسم کسی کو بھی پیش کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے ۔

جب پہلا قدم اٹھا لیا جاتا ہے تو باقی راستہ آسان ہو جاتا ہے۔ لڑکی غیرپیشہ ور طوائف بن جاتی ہے۔ پھر وہ بتدریج کل وقتی طوائف بن جاتی ہے۔ اس پیشے میں زندگی مقابلتاً آسان ہوتی ہے اور ابتدائی مرحلے میں تو کافی گلیمر ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ اعلیٰ طبقے کی طوائفوں کو ایسے مردوں سے واسطہ پڑتا ہے جو کہ بہتر سماجی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔

ایسی عورت جو امیر والدین کی بیٹی یا امیر خاوند کی بیوی ہو وہ طوائف کا پیشہ اختیار کرنے والی لڑکی کے حوالے سے حیرت کا اظہار کرتی ہے۔ اسی طرح قدامت پسند مذہبی لوگ بھی جسم فروشی کو بطور پیشہ اپنانے والی لڑکیوں پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔ تاہم نہ تو اوّل الذکر اور نہ مؤخر الذکر کو ان وجوہات کا علم ہوتا ہے جو غریب لڑکی کے والدین کو اپنی بیٹی کو جسم فروشی کرتے ہوئے دیکھنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

غریب والدین کے ہاں اور پسماندہ ماحول میں جنم لینے والی لڑکیاں افلاس کے جبر سے فرار کے لیے جسم فروشی کی راہ پر چل نکلتی ہیں کیونکہ ان کے سامنے کسی دکان میں سیلز گرل یا فیکٹری ورکر بننے اور کسی عام سی شکل و صورت والے محنت کش سے بیا ہے جانے اور گھریلو زندگی کی یکسانیت زدہ فضا میں رہنے کے علاوہ مستقبل کی کوئی امید نہیں ہوتی۔

بڑے شہروں کے غریب علاقوں کے بچوں کے لیے جنسی اعضاء اور حتیٰ کہ جنسی عمل میں بھی کوئی اسرار نہیں ہوتا ہے۔ فحاشی کا تو ذرا بھی سوچا نہیں جاتا۔ ماضی کی طرح موجودہ تہذیب یافتہ دور میں بھی ہر شہر میں آبادی کی کثرت پائی جاتی ہے ۔ جس کی وجہ سے اکثر گھرانے ایک ہی کمرے میں سوتے ہیں۔ بھائی بہنوں سے جنسی لذت حاصل کرتے ہیں۔ باہمی مشت زنی عام ہوتی ہے۔ ایسے گھرانوں میں محرمات کے ساتھ جنسی تعلقات اکثر و بیشتر ناگزیر ہوتے ہیں۔ لندن میں 1912 ء میں شائع ہونے والی کتاب The Prevention of Destitution کا مصنف لکھتا ہے کہ کچی آبادیوں میں کسی لڑکی کے بطن سے اس کے باپ کا بچہ پیدا ہونا محض ایک مزاحیہ واقعہ سمجھا جاتا ہے۔” انگلینڈ کے دیہاتی علاقوں میں صورتحال اس سے کچھ ہی بہتر ہو گی۔

 دیہاتی علاقوں کے لڑکے لڑکیاں جانوروں کے جنسی اعضاء سے شناسائی کے باعث اپنے شہری ہم عمروں سے آگے نکل جاتے ہیں۔ اس بات پر زیادہ حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ دیہاتی علاقوں کی لڑکیاں نسبتاً کم عمر میں ہی جنسی عمل کا تجربہ کر چکی ہوتی ہیں اور اکثر و بیشتر طوائف بن جاتی ہیں۔ مزید براں ایسے ماحول میں شادی کو زیادہ قابل تعریف نہیں سمجھا جاتا۔ اس کے برعکس گھریلو جھگڑوں کے مسلسل نظارے بچوں کو جسم فروشی کی طرف مائل کر دیتے ہیں۔

جسے میرو نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا: ”معاشرے کی حقیقی صورت حالات غریب علاقوں کی یہ لڑکیاں اپنے سادہ انداز میں اس حقیقت کو پاچکی ہوتی ہیں ۔ جسے میرو نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا: ”معاشرے کی حقیقی صورت حالات عورتوں کے ہر اعلیٰ اخلاقی احساس کے خلاف ہوتی ہے کیونکہ اپنے آپ کو جسم فروشی کے لیے وقف کر دینے والی اور شادی کے لیے خود کو بیچ دینے والی عورتوں میں واحد فرق قیمت اور معاہدے کی مدت کا ہوتا ہے۔ شادی اور طوائفیت (Prostitution) ہر دو صورتوں میں عورت مرد جو اپنا جسم برائے جنسی تسکین پیش کرتی ہے ۔ شادی کی صورت میں عورت زندگی بھر کے لئے سودا کرتی ہے۔ جبکہ طوائفیت کی صورت میں عورت عارضی جنسی تعلق کی قیمت وصول کرتی ہیں ۔

ایسے حالات بھی ہوتے ہیں کہ جن میں اچھے خاندانوں تک کی لڑکیاں جسم فروشی کا پیشہ اختیار کر لیتی ہیں۔ حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر انہیں جسم فروشی یا خودکشی یا بھوک سے مر جانے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ جو قومیں انقلاب سے دوچار ہوتی ہیں یا جن پر کوئی دوسرا ملک حملہ کر دیتا ہے ان کی بہت سی پناہ گزین عورتیں بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر جسم فروشی کرنے لگتی ہیں۔ وہ غیروں کے ملک میں ہوتی ہیں، اس ملک کی زبان سے ناواقف ہوتی ہیں اور انہیں کوئی کام کرنا نہیں آتا نہ وہ کسی کام کے لیے موزوں ہوتی ہیں، چنانچہ وہ مایوسی کے عالم میں اس شے کو بیچتی ہیں۔ جس کی منڈی ہر اس جگہ موجود ہے جہاں مرد موجود ہے۔

جسم فروشی کو پیشے کے طور پر اپنانے کی وجوہ میں جنس کا کتنا عمل دخل ہوتا ہے۔ اس کے حوالے سے کافی اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ موراسو کہتا ہے کہ جسم فروشی کی بڑی وجہ جنسی خواہش ہے اور وہ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ طوائفوں کی اکثریت جنسی مریض ہوتی ہے۔ دوسری انتہا پر لومبروسو ہے جو کہتا ہے کہ طوائفیں جنسی اعتبار ہوئے سے سرد ہوتی ہیں اور میورک لندن کی طوائفوں کے حوالے سے خصوصی طور پر لکھتے ہوئے لومبروسو کے نکتہ نظر کی تائید کرتا ہے۔مجموعی طور پر محققین کی اکثریت کی رائے یہی ہے کہ جسم فروشی کا پیشہ اختیار کرنے کا محرک عورتوں کا شدید جنسی جذبہ ہوتا ہے۔ عام لوگوں کی رائے بھی یہی ہے جس کو تقویت ان مردوں کے بیانات سے ملی ہے، جو طوائفوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

تاہم شاید چند ایک مثالوں میں طوائفوں میں جنسی جذبے کے بھڑکنے یا جذبات کے اظہار کو غلطی سے حقیقت مان لیا گیا ہے۔ اس امر کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جنس طوائف کا کاروبار ہوتی ہے اور یہ کہ وہ اپنے کاروبار کے تمام حربوں کو استعمال کرنے میں کامل مہارت رکھتی ہے۔ طوائف اپنے گاہک کو مطمئن کرنے کے لیے ایسی شہوت پسندی کا مظاہرہ کرتی ہے، جس کے اظہار میں گھریلو عورتیں شرم کا شکار ہو جاتی ہیں۔ طوائف کا گاہک چونکہ خود شہوت سے مغلوب ہوتا ہے۔ اس لیے وہ طوائف کے مصنوعی جنسی جذبے کو حقیقی سمجھ لیتا ہے۔

تاہم یہ امر یقینی نہیں ہے کہ جو عورتیں جسم فروشی کے پیشے کا آغاز کرتی ہیں ۔ وہ اس وقت پرانی طوائفوں سے زیادہ جنسیت زدہ ہوتی ہیں یا نہیں۔ بہرحال اس حوالے سے کسی قابل قدر ثبوت کا ملنا دشوار ہے۔ خود طوائفوں سے دریافت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اسی طرح یہ امر بھی یقینی نہیں ہے کہ طوائفیں معاشرے کے دوسرے طبقوں کی عورتوں سے ٹھنڈی ہوتی ہیں یا نہیں طوائفوں کے ٹھنڈے ہونے کا مفروضہ بوڑھی طوائفوں کو مدنظر رکھ کر قائم کیا گیا ہے اسی لئے یہ ذیادہ وقعت نہیں رکھتا ۔

 اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں نوجوان اور کامیاب طوائفوں میں جنسی جذبے کی موجودگی یا عدم موجودگی کا سوال ہے تو اس میں شک شبہے کی گنجائش ہے وہاں بوڑھی اور ناکام طوائفوں کے معاملے میں شہبے کی گنجائش تھوڑی ہے۔ ہر بوڑھی طوائف جنسی اعتبار سے ٹھنڈی ہوتی ہے۔

وہ جتنا زیادہ جسم فروشی کرتی ہے اتنا زیادہ جنسی اعتبار سے ٹھنڈی ہوتی جاتی ہے۔ اس امر کے وافر ثبوت ملتے ہیں کہ دنیا بھر کی طوائفوں میں چپٹی لگانے اور ہم جنس پرستی کا رجحان عام ہوتا ہے۔ جو عورت نارمل جنسی عمل سے لذت حاصل کر لیتی ہے وہ کبھی کبھار ہی چپٹی لگاتی ہے اور ایسی عورت ہم جنس پرست تو شاذ و نادر ہی ہوتی ہے۔ جس عورت کو مرد کے ساتھ جنسی عمل کے دوران لذت حاصل نہیں ہوتی، وہ ایک طرف تو چپٹی کی طرف مائل ہو جاتی ہے اور دوسری طرف اس میں ہم جنس پرستانہ رجحانات پرورش پانے لگتے ہیں۔

 یہ دلیل کہ وہ طوائف بننے سے پہلے سے ہم جنس پر بہت تھی، زیادہ مضبوط نہیں ہے۔ کوئی ہم جنس پرست عورت طوائف کا پیشہ شاذ و نادر ہی اپناتی ہے۔ تاہم اس کےبرعکس جسم فروشی عورتوں میں ہم جنس پرستی اور دیگر کجرویوں کے فروغ پانے کا باعث ہوتی ہے۔ اس حوالے سے مول (Moll) کی یہ تحقیق اہم ہے کہ برلن کی طوائفوں میں ہم جنس پرستی عام ہے اور 25 فیصد طوائفیں اس فعل کی نشئی (Addicted) ہیں۔

اگر عورتوں میں جنس زندگی عام ہوتی تو یہ جسم فروشی کی ایک خاص الخاص وجہ ہو سکتی تھی، تاہم موجودہ دور میں عورتوں کی جنس زدگی، پہلے ادوار کی نسبت زیادہ ہونے کے باوجود جسم فروشی کو پیشے کے طور پر اپنانے میں بہت کم کردار ادا کرتی ہے۔ البتہ ایک زمانہ ایسا گزرا ہے جب عورتوں کی جنس زدگی نے انہیں طوائف بننے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔

 قدیم روم کے شرفاء کی عورتیں اپنی شدید جنسی خواہش کی تسکین کے لئے باقاعدہ طوائف کی حیثیت سے اپنے آپ کو رجسٹر کروا لیتی تھیں ۔ بعض عورتوں نے اپنی جنسی بھوک مٹانے کے لیے غلام رکھے ہوئے تھے۔ موجودہ دور کی جنسی مریض عورتوں کو آزادی نسواں کی وجہ سے اپنی جنسی بھوک مٹانے کے ایسے ذرائع میسر ہیں کہ جو پہلے ادوار کی ایسی عورتوں کو حاصل نہیں رہے۔ موجودہ دور کی نوجوان لڑکی کی صورت حال 1914 ء کی نگرانی میں رہنے والی دوشیزہ سے بالکل مختلف ہے۔

آج کے دور کی لڑکی مختلف نوجوان لڑکوں کے ساتھ کاروں میں گھومتی ہے ۔ ویک اینڈز (Week Ends) اور چھٹیوں کے دوسرے دنوں میں یہاں وہاں سیریں کرتی پھرتی ہے اور رنگ رلیاں مناتی ہے اور اس کے والدین اور معاشرہ اس پر معترض نہیں ہوتے ۔

آج کل انگلینڈ میں والدین اپنی بیٹیوں کو گھر چھوڑ کر تنہا رہنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ یہ امر یعنی ہے کہ اس آزادی کے نتیجے میں بہت سی لڑکیاں جُزو وقتی یا كل وقتی طور پر جسم فروشی کا پیشہ اپنا لیتی ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ لڑکی جس عمارت میں کمرہ لے کر رہنے لگتی ہے۔ اس عمارت میں کوئی غیر پیشہ ور طوائف بھی مقیم ہوتی ہے یا اتفاق ایسا ہوتا ہے کہ دونوں ایک ہی کمرے میں رہنے لگتی ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اوّل الذکر لڑکی جسم فروشی کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ یوں جہاں ایک طوائف تھی۔وہاں تھوڑے ہی عرصے میں دوسری طوائف بھی جنم لے لیتی ہے۔

اپارٹمنٹ یا کمرے میں حصہ داری (Sharing) بلاشبہ خطرات سے خالی نہیں ہے۔ جسم فروشی کے حوالے سے تحقیق و تجزئیے میں اس امر کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ اکیلی لڑکیوں کا اکٹھے رہنا جبکہ ان میں سے ایک اتفاقاً جسم فروش ہو، دوسری لڑکیوں میں طوائف بننے یا ہم جنس پرستی کے رجحان اور دوسری جنسی کجرویوں کے جنم لینے کا باعث بنتا ہے۔ انگلینڈ یا کسی دوسرے ملک میں موجود ہم جنس پرست عورتوں کی تعداد شمار کرنا ممکن نہیں ہے۔

________________________________

 


Leave a Comment