جسم فروشی کی تاریخ – Part 2

جسم فروشی کی بنیادی وجہ


,

جہاں تک عورتوں کی جسم فروشی کا تعلق ہے، اسکی ذمہ دار عورت نہیں بلکہ مرد ہے۔ یہ جسم فروشی کی حیاتیاتی وجہ ہے۔ اگرچہ اس کو کھلم کھلا تو کبھی بیان نہیں کیا گیا ہے تاہم عملی طور پر یہ امر تسلیم شدہ ہے۔

 عورتوں کو جسم فروشی کا پیشہ اپنانے پر مجبور کرنے والی وجوہات کو خود جسم فروشی کی بنیادی وجہ سے خلط ملط کر دیا جاتا ہے جو کہ ایک بہت مختلف شے ہے۔ جسم فروشی جوہری اعتبار سے جسمانی ہوتی ہے۔ اس کی موجودگی کی وجہ وہ شدید جسمانی ضرورت ہے جو مرد کو اپنی ساتھی تلاش کرنے اور اس کے ساتھ جنسی عمل کرنے پر اکساتی ہے۔سادہ الفاظ میں کہا جائے تو یہ ویسی ہی ضرورت ہوتی ہے جیسی کہ کسی کتے کو کتیا کے گرد گھومنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

گزشتہ دو ہزار برسوں کے دوران یہ حیاتیاتی ضرورت بے شمار اخلاقی اور سماجی لیڈروں کی طرف سے جسم فروشی کو شر قرار دلوانے کا باعث بنی۔۔۔۔۔  ایسا شر جس کو لازماً بھگتنا ہوگا۔ ایک ایسا سرطانی پھوڑا ہے،جس کو کبھی ختم نہیں کیا جاسکتا بلکہ جس پر صرف نگاہ رکھی جاسکتی ہے۔

 ان کے ذہنوں میں ہمیشہ یہ خوف رہا تھا کہ فرض کیا جسم فروشی کو ختم کرنا ممکن ہو تو اس کے غائب ہونے سے یکے بعد دیگرے بدترین شر نمودار ہونے لگیں گے۔ اسی نکتہ نظر کی وجہ سے حکومتیں امن اور جنگ کے دوران فوجیوں کی طوائف بازی کو گوارا کرتی ہیں اور حد تو یہ ہے کہ بعض اوقات غیر ملکوں میں بھیجے گئے فوجیوں کے لیے چکلوں کا اہتمام کرتی ہیں۔

جسم فروشی ہر زمانے میں ایک پیچیدہ مسئلہ رہی ہے۔ جسم فروشی اس لیے موجود ہے کہ اس کو قتل، چوری یا شیر خوار بچوں کے قتل کی طرح دبایا نہیں جاسکتا بلکہ اس کی موجودگی کی وجہ یہ ہے کہ اس کو دبانے کی کبھی سنجیدگی کے ساتھ کوشش ہی نہیں کی گئی۔ بعض ملکوں میں کھلے عام جسم فروشی ہوتی ہے اور بعض ملکوں میں اسے ایک لعنت قرار دے کر اس پر پابندیاں لگائی گئی ہیں اور کسی حد تک محدود کر دیا گیا ہے۔ تاہم اسے سختی سے دبایا نہیں گیا۔

 جسم فروشی کی مذمت اور ساتھ ہی اس کو صرف نیم دلی سے محدود کرنے کی کوششوں کے حوالے سے بہت سے جواز پیش کئے جاتے ہیں ۔اس شر کو برداشت کرنے کےلئے بنیادی جواز سات سو سال پہلے سینٹ آگسٹین نے مہیا کیے تھے۔ جن کو جدید ملمع کاری کر کے آج بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ طوائف معاشرے کا لازمی حصہ ہوتی ہے۔ بے شک وہ گناہ گار ہے، اخلاقی اعتبار سے کج رو ہے، بدکار ہے، فاحشہ ہے،  تاہم ہوس کو حدوں میں رکھنے کے لیے اس کا ہونا ضروری ہے۔

جیسا کہ سینٹ آگسٹین سے پہلے سینٹ پال نے کہا تھا اگرچہ جنسی عمل گناہ ہوتا ہے تاہم “جلنے” سے شادی کر لینا بہتر ہے۔  لہٰذا سینٹ آگسٹین کا کہنا تھا کہ بدکاری گناہ ہے تاہم مرد کے لیے بہتر ہے کہ وہ کسی معزز عورت کے ساتھ زنا کرنے کی بجائے کسی طوائف کے ساتھ جنسی عمل کرلے۔ اس کے اپنے الفاظ یہ ہیں :

” طوائف سے زیادہ غلیظ کون ہے؟ تاہم انہیں معاشرے سے نکال دو گے تو ہر طرف ہوس کے داغ نمایاں ہو جائیں گے۔ پس یہ طبقہ اپنے تمام تر شرمناک افعال کے باوجود قوانین کے تحت ایک نہایت گندے مقصد کو پورا کرتا ہے۔

اسی طرح ایتھنیئس کے بقول سولن نے معزز عورتوں کو زنا سے محفوظ رکھنے کے مقصد کے تحت عورت غلاموں کی خرید و فروخت کو جائز قرار دیا تھا۔ سالویانس لکھتا ہے کہ رومنوں نے معزز عورتوں کے زنا سے تحفظ کے لیے چکلے قائم کیے ہوئے تھے۔  تاہم مجموعی طور پر سینٹ آگسٹین کے بعد سے مذہبی پیشوا شادی کے علاوہ ہر طرح کے جنسی تعلقات کی مذمت کرتے آئے ہیں ۔ اور وہاں واضح طور پر جسم فروشی کی مذمت کرتے آئے ہیں۔

سینٹ پال اور اس کے معاصرین کے خیالات کو نظر انداز کر کے صرف شادی کو تقدس دیا گیا اور اس کے علاوہ ہر قسم کے جنسی تعلق کو ممنوع قرار دیا گیا۔ جسم فروشی کو فحاشی اور بدکاری قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی گئی ۔

اٹھارہویں صدی  کے اوائل  تک صورتحال ایسی ہی رہی تاوقتیکہ مینڈ وائل نے اپنی بدنام زمانہ تحریر  The Fable Of The Bees میں سینٹ آگسٹین کے اس فلسفے کو دوبارہ پیش کیا کہ نسائی اخلاق کے تحفظ کے حوالے سے معاشرہ طوائف کا مرہونِ احسان ہے۔ ایک صدی بعد اس تصور کو مزید فروغ ملا۔

بالزاک نے Physiology Of Marriage میں طوائفوں کے بارے میں لکھا : ”وہ جمہوریہ کے لیے اپنے آپ کو قربان کر دیتی ہیں اور معزز خاندانوں کے تحفظ کے لیے اپنے جسموں کو ڈھال بنا دیتی ہیں۔“ دوسرے لکھنے والوں نے بھی ایسے ہی دلائل دیئے۔ شادی کے علاوہ بھی مرد کی جنسی ضرورت اور اس کی کثیر زوجگی

کی فطرت نیز مرد سے عورت کا تحفظ دو ایسے دلائل تھے جنہیں جسم فروشی کے جواز پر ہونے والے ہر مباحثے میں پیش کیا جانے لگا تھا۔

یہ امر کس قدر حیرت کا باعث ہے کہ اس حقیقت کو کبھی نہ تو سمجھا گیا اور نہ اس کو تسلیم کیا گیا کہ جسم فروشی کے وجود کی اصل وجہ مرد ہے۔ یہ بات بہت عجیب محسوس ہوتی ہے کہ اس موضوع پر تحقیق کرنے والوں نے عورت کی معاشی ضرورتوں کو جسم فروشی کی ایک بڑی وجہ قرار دیا۔ یہ سچ ہے کہ یہ ایک اہم وجہ ہے تاہم بنیادی وجہ نہیں ہے۔ محنت کے روایتی طریقوں کے علاوہ کسی اور ذریعے سے روزی کمانے کی عورت کی ضرورت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جسم فروشی کے پیشے کو موجود ہونا چاہیے۔

 جسم فروشی کی حقیقی وجہ مرد کی جنسی بھوک ہے۔ یہ بھوک شادی کے بندھن کے بغیر جنسی عمل کی طلب کو جنم دیتی ہے۔ پیشہ ورانہ جسم فروشی اس حقیقت سے وجود میں آئی ہے کہ مرد اپنی جنسی ضرورتوں کی تسکین کے لیے معاوضہ ادا کر سکتا ہے۔ اگر مرد معاوضہ ادا کرنے سے قاصر یا اس کے لیے نہ رضامند ہوتا تو کہا جاسکتا ہے کہ پیشہ ور طوائفیں بھی نہ ہوتیں ، تاہم ایسی صورت میں زنا کے واقعات میں بے تحاشا اضافہ ہو جاتا۔

چنانچہ سینٹ آگسٹین، لیکی اور بالزاک کے خیالات کا انحصار اس امر پر ہے کہ مرد اپنی لذت کا معاوضہ ادا کر سکتا ہو۔ اگر معاشی آسودگی کی وجہ سے جسم فروش عورتیں موجود نہ رہیں تو پھر یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ زنا کے واقعات روکنے کے لئے مفت عورتیں فراہم کریں۔ خواہ وہ کنیزوں جی صورت میں ہوں یا تنخواہ دار  طوائفوں کی  صورت میں۔

مرد جوہری اعتبار سے کثیر زوجی ہے اور تہذیب کی ترقی نے اس پیدائشی خصوصیت کو تقویت دی ہے۔ جس معاشرے میں مرد صرف مختصر تعداد میں کثیر زوجی یا متواتر شادیاں کر سکتے ہوں۔

 تہذیبی ترقی کا ہر مرحلہ مرد کی بدکاری کی حیاتیاتی طلب کو بڑھاتا ہے ۔ جنسی تحریک تہذیب کے ساتھ ساتھ ترقی کرتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پالتو جانوروں کی جنسی بھوک جنگلی جانوروں کی نسبت بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔  ہر زوآلوجسٹ (حیوانیات کا عالم) اس حقیقت سے آگاہ ہے۔

 یہ ایک حقیقت ہے انسانی نوع کا سروکار دو بنیادی چیزوں سے ہے یعنی خوراک اور جنس، جیسا کہ مارکس نے واضح کیا تھا۔ جس قوم میں بقاء کی جدوجہد مشکل ہوتی ہے اس میں خوراک جنس پہ غالب آجاتی ہے۔ تہذیب میں کہ جہاں خوراک لوگوں کی اکثریت کے لیے مسئلہ نہیں رہتی، جنس خوراک پر غالب آجاتی ہے۔ ایسے جدید معاشرے جہاں معیارِ زندگی ہر دس سال کے عرصے میں مزید ترقی پا جاتا ہے وہاں جنس غالب آتی جا رہی ہے۔ جیسا کہ موجودہ دور کے انگلینڈ اور امریکہ میں ہو رہا ہے۔ ایسے حالات میں کہ جب مردوں اور عورتوں کے مابین روابط زیادہ سے زیادہ قریبی اور کھلے ڈلے ہوتے جارہے ہوں، جہاں جنسی کشش عورتوں کا فن قرار پاچکی ہو ضبط دشوار سے دشوار تر ہو جاتا ہے۔ ضبط کے برے اثرات خود ضبط کے پیدا کردہ نہیں ہیں بلکہ جنسی اعتبار سے بھڑکی ہوئی قوم کو جبراً ضبط کروانے سے پیدا ہوتے ہیں ۔

_________________________________

 


Leave a Comment