آداب زندگی
.
جہاں تک لوگوں کے طرزِ رہائش اور اپنے رہنے کے انداز کا سوال ہے تو امیر لوگوں کے پاس تو بے انتہا دولت اور لامحدود طاقت ہے لیکن اس کے مقابلہ میں عام لوگ انتہائی غربت اور مفلسی کی زندگی گزارتے ہیں۔
مفلسی کے باعث ان کی حالت یہ ہے کہ ان کے پاس مشکل سے دو وقت کے کھانے کے لئے کچھ ہوتا ہے۔ ان کی رہنے کی جگہوں یا گھروں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ عبرت کا نمونہ ہیں۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ لوگ ان تکالیف کو انتہائی صبر کے ساتھ برداشت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اس قابل نہیں کہ ان کے ساتھ اس سے زیادہ اچھا سلوک ہو۔ ان میں مشکل ہی سے کوئی اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ اپنی زندگی کو تبدیل کرے اور اپنی موجودہ حالت کو بہتر بنائے۔ یہ اس لئے بھی مشکل ہے کہ ذات پات کی وجہ سے لڑکے کو وہی پیشہ اختیار کرنا پڑتا ہے کہ جو اس کے باپ کا ہے۔
لوگوں کے لئے یہ بھی ناممکن ہے کہ اپنی ذات سے باہر شادی بیاہ کر سکیں۔ اس لئے ہر فرد اپنی ذات اور پیشہ کے بارے میں پہلے ہی سے آگاہ ہوتا ہے۔
یہاں پر مزدوروں اور دستکاروں کے لئے دو عذاب ہیں۔ پہلا عذاب تو یہ ہے کہ ان کی تنخواہیں بے انتہا کم ہوتی ہیں۔ سنار، رنگریز، کشیدہ کاری کرنے والے، قالین بننے والے، جولاہے، لوہار، درزی معمار، پتھر توڑنے والے اور اسی طرح سے دوسرے پیشہ ور دستکار و ہنرمند‘ یہ اس کام کو جو ہالینڈ میں ایک آدمی کرے چار مل کر کرتے ہیں۔ صبح سے شام تک کام کرنے کے بعد ان کی روزانہ کی کمائی مشکل سے 5 یا 6 ٹکہ ہوتی ہے۔
ایک دوسرا عذاب ان کے لئے گورنر امراء، دیوان، کوتوال، نجشی اور دوسرے شاہی عہدے داروں کی شکل میں آتا ہے۔ اگر ان میں سے کسی کو کام کروانے کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ کام کرنے والے کو چاہے وہ چاہے یا نہ چاہے زبردستی پکڑ کر بلوا لیتے ہیں، ایک مزدور یا کاریگر کی یہ ہمت نہیں ہوتی ہے کہ وہ اس پر ذرا بھی اعتراض کرے۔
پورے دن کام کے بعد شام کو یا تو اسے معمولی سی اُجرت دی جاتی ہے یا بغیر کسی ادائیگی کے اسے رخصت کر دیا جاتا ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا کھانا کس قسم کا ہو گا۔ وہ گوشت کے ذائقہ سے بہت کم واقف ہوتے ہیں۔ ان کے روز کے کھانے میں سوائے کھچڑی کے اور کچھ نہیں ہوتا ہے ‘جیسے چاول اور مونگ کی دال کو ملا کر پکایا جاتا ہے شام کے وقت یہ گھی ملا کر کھاتے ہیں۔ دن کے کھانے میں یہ بُھنے ہوئے چنے کھا لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے لئے یہ غذا ہی کافی ہے۔
ان کے مکانات کچی مٹی سے بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ فرنیچر نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے سوائے چند مٹی کے برتنوں کے‘ کہ جن میں کھانا پکایا جاتا ہے یا پانی کے مٹکے۔ دو بستر ایک شوہر کے لئے اور دوسرا بیوی کے لئے۔ یہاں شوہر و بیوی ایک ساتھ نہیں سوتے ہیں۔
شوہر کو جب رات کو ضرورت ہوتی ہے تو وہ بیوی کو اپنے پاس بُلا لیتا ہے اور جب وہ فارغ ہو جاتا ہے تو بیوی دوبارہ سے اپنے بستر پر چلی جاتی ہے۔ ان بستروں پر چادریں کم ہی ہوتی ہیں۔ اکثر ایک ہی چادر بچھانے کے کام آتی ہے۔ یہ گرمیوں کے موسم میں تو ٹھیک رہتی ہے مگر جب سخت سردیاں پڑتی ہیں تو سردی کی راتیں گزارنا ان کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔
وہ کمرے کے دروازے کے باہر اپلے جلا کر اسے گرم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ گھر میں کوئی چمنی یا آتشدان نہیں ہوتا ہے۔ اس وجہ سے آگ کے اس دھوئیں سے پورے شہر میں ماحول اس قدر خراب رہتا ہے کہ آنکھیں بہتی رہتی ہیں اور حلق میں جلن رہتی ہے۔ اس ملک میں چپڑاسیوں اور ملازموں کی بڑی تعداد ہے۔ ہر شخص کی ملازمت میں ایک یا دو چپڑاسی ہوتے ہیں۔ چاہے وہ سوار ہو، تاجر ہو، یا شاہی عہدے دار۔ ہر ایک اپنی حیثیت کے مطابق اپنی خدمت کے لئے ملازم رکھتا ہے۔
گھر کے باہر یہ اپنے آقا کے ساتھ چلتے یا دوڑتے رہتے ہیں۔ جس کے پاس جتنے زیادہ ملازم ہوں، اس سے اس کی حیثیت کا پتہ چلتا ہے۔ گھر کے اندر یہ گھریلو کام کاج میں مصروف رہتے ہیں کہ جہاں ہر ایک کو خاص ذمہ داری دی جاتی ہے۔ سائس اس کے گھوڑوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ بیل والا اس کے تانگے اور گاڑی کو سنبھالتا ہے۔ فراش، اس کے خیموں اور قالینوں کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ جب وہ سفر پر ہو تو یہ منزل پر خیمہ لگانا اور قالین بچھانے کا کام کرتا ہے۔ جب مالک کا قیام گھر پر ہو تو یہ اس کے دیوان خانہ میں فرش فروش کو دیکھتا ہے۔ مشعلحی رات میں روشنی کا انتظام کرتا ہے۔
ساربان اونٹوں کی نگرانی کرتا ہے۔ اس کے ہاتھیوں کے لئے دو یا تین مہادت ہوتے ہیں۔ پیغام رساں سر پر ٹوپی میں کلغی لگائے، دو گھنٹیوں کو کمر میں باندھے اس کے پیغامات کو لے کر جاتا ہے اور بھاگتا ہوا 25 سے 30 کوس ایک دن میں طے کرتا ہے۔ یہ مستقل افیم یا بھنگ کھاتے ہیں تاکہ انہیں مسلسل دوڑنے کی وجہ سے تھکن کا احساس نہ ہو، اس لئے وہ مدہوشی یا نشہ کے عالم میں دوڑتے رہتے ہیں۔
وہ قاعدے قانون کے مطابق کسی کو اس سوال کا جواب نہیں دیتے کہ وہ کہاں سے آ رہے ہیں؟ اور کہاں جا رہے ہیں؟ بس سیدھے اپنی منزل کی جانب دوڑتے رہتے ہیں۔ یہ اپنے آقاؤں کے لئے کہ جو گورنر جیسا اہم عہدہ رکھتے ہیں، خوش خبری بھی لاتے ہیں اور بادشاہ کی تنبیہہ یا غصہ بھی۔
بادشاہ کو جو اہم خبریں اور واقعات پہنچائے جاتے ہیں اگر ان میں دیر ہو جائے اور یہ خبر بادشاہ کو کسی دوسرے ذریعہ سے مل جائے، تو اس عہدے دار کو جس نے یہ خبر بھیجنے میں دیر کی ، ذمہ دار سمجھتے ہوئے فوراً اس کے عہدے سے برخاست کر دیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ ملازموں کی اس قدر تعداد ہوتی ہے کہ انہیں بعض اوقات گننا مشکل ہو جاتا ہے۔ بڑے امراء کے گھروں میں ہر ملازم اپنی مخصوص ذمہ داری پوری کرتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ کسی پرتگیزی جہاز پر اگر سامنے والا ستون گر جائے تو جہاز کا بڑا عہدے دار اسے فوراً اٹھا کر ٹھیک نہیں کرے گا بلکہ یہ کام کرنا وہ اپنی ہتک سمجھے گا اور خاموشی سے وہاں سے گزر جائے گا۔
ملازموں کی تنخواہیں اکثر پیسے کاٹ کر دی جاتی ہیں۔ اکثر بڑے امراء تو 40 دن کو ایک مہینہ گنتے ہیں اور 4 یا 5 روپیہ تنخواہ دیتے ہیں۔ اگر کئی کئی مہینے کی تنخواہیں چڑھ جاتی ہیں تو ان کی ادائیگی پھٹے پرانے کپڑوں یا ٹوٹے برتنوں کی شکل میں کی جاتی ہے۔۔
اگر ان کا مالک یا آقا کسی اہم عہدے اور منصب پر فائز ہوتا ہے تو اس صورت میں اس کے ملازم بھی بد تمیز اور مغرور ہو جاتے ہیں۔ یہ معصوم لوگوں پر ظلم ڈھاتے ہیں اور اپنے مالک کی طاقت و اختیارات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی برائیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ان میں سے بہت کم ایسے ہیں کہ جو اپنے مالک کی خلوص کے ساتھ خدمت کرتے ہیں۔ جب بھی انہیں موقع ملتا ہے تو اس میں سے اپنا حصہ بطور ” دستوری” یا کمیشن کے رکھ لیتے ہیں۔
اگرچہ اس کے بارے میں ان کے مالک کو اچھی طرح سے معلوم ہوتا ہے مگر وہ اس لئےخاموش رہتے ہیں کہ یہ غریبوں کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس کا بوجھ ان کی جیب پر نہیں پڑتا ہے لیکن یہ ان کی غلطی ہے کیونکہ کمیشن ہمیشہ اس پر دیا جاتا ہے کہ جو وہ خریداری کرتے ہیں اور اس کا بوجھ بہرحال مالک پر ہی پڑتا ہے۔ اگر ملازم یہ سب کچھ نہ کریں تو وہ مشکل سے اپنا اور اپنے خاندان کا گزارہ کر سکتے ہیں۔ اس لئے ان ملازموں اور مزدوروں کی مالی حالت میں کوئی فرق نظر نہیں آتا ہے۔ دونوں ہی غربت و مفلسی کی زندگی گزارتے ہیں۔
تاجر چاہے وہ کسی قسم کی تجارت کرتے ہوں، مصالحہ جات کی یا دواؤں، پھلوں، کپڑوں یا روز مرّہ کے استعمال کی اشیاء کی ،وہ ایک مزدور کے مقابلہ میں زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ تو بہت دولت مند اور خوش حال ہیں۔ لیکن ان کے لئےضروری ہے کہ اپنی دولت کا اظہار نہ کریں کیونکہ دوسری صورت میں جھوٹے الزامات کے وقت انہیں پکڑ لیا جائے گا اور ان کے پاس جو کچھ بھی ہے اسے قانونی طور پر ضبط کر لیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گورنر کے اردگرد مخبروں اور جاسوسوں کا ایک مجمع رہتا ہے اور جو اس کی خوشنودی کی خاطر دشمن اور دوست میں تمیز کئے بغیر لوگوں پر الزامات لگاتے ہیں اور اپنے لئے مراعات حاصل کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ دستور بھی ہے کہ اگر بادشاہ کے امراء یا گورنروں کو ان اشیاء کی ضرورت ہو کہ جو ان کے پاس ہیں۔ تو یہ ان کا فرض ہے کہ انہیں آدھی یا آدھی سے بھی کم قیمت پر فروخت کریں۔ جب بھی امراء اس سے کچھ خریدتے ہیں تو ایک تو اس کی قیمت کم دیتے ہیں۔ پھر ان کے ملازمین اسی میں سے اپنا کمیشن یا دستوری وصول کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غریب تاجر چند گھنٹوں میں مہینہ بھر کے پورے منافع سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
مختصراً یہ ان تاجر لوگوں کے بارے میں ہے کہ جو اپنی فرماں برداری اور اطاعت میں دوسرے عام لوگوں کی طرح ہیں اور ان کی بھی وہی حالت ہے کہ جو عوام کی ہے یعنی ذلیل و خوار گندگی کے کیڑے اور ان چھوٹی مچھلیوں کی طرح کہ جو چاہے بڑی مچھلیوں سے خود کو کتنا ہی چھپا کر رکھیں مگر پھر بھی ان کا لقمہ بن جاتی ہیں۔
Continue……..
__________