جہانگیر کا ہندوستان – Part 1

انتظامِ سلطنت


.

جہانگیر کے سلسلہ میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اس نے اپنی شخصیت کو ختم کر کے خود کو اپنی چالاک بیوی کے حوالہ کر دیا ہے کہ جس کا تعلق ایک کم تر خاندان سے ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوا ہے کہ یا تو وہ زبان کی بڑی میٹھی ہے یا پھر اسے شوہر کو قابو کرنے کے حربے آتے ہیں۔ اس نے اس صورت حال سے پورا پورا

فائدہ اٹھایا اور نتیجتاً اس نے آہستہ آہستہ خود کو بے انتہا مالدار بنا لیا ہے۔

اس وقت اس کی حیثیت شاہی خاندان کے کسی بھی فرد سے زیادہ ہے۔ اس کے وہ تمام حمایتی جو اس کے ساتھ ہیں، انہیں بھی بے انتہا مراعات سے نوازا گیا ہے۔ اس لئے وہ تمام امراء اور مصاحب جو اس وقت بادشاہ کے قریب ہیں۔ وہ سب اس کے آدمی ہیں اور اسی کی سفارش سے ان کو ترقیاں ملی ہیں۔ چونکہ یہ تمام عہدے دار اس کے احسان مند ہیں لہٰذا بادشاہ تو برائے نام ہے۔ ورنہ تمام اختیارات اس کے اور اس کے بھائی آصف خاں کے پاس ہیں اور اس وجہ سے سلطنت پر ان کو پورا پورا کنٹرول ہے۔

بادشاہ کے کسی فرمان اور حکم کی اس وقت تک تعمیل نہیں ہوتی ہے کہ جب تک ملکہ کی اس پر تصدیق نہ ہو اگر انہوں نے دولت و شہرت اور اقتدار سب کچھ حاصل کر لیا ہے مگر ان کی خواہشات اور ہوس کی کوئی انتہا نہیں ہے اور وہ جو کچھ ان کے پاس ہے اس سے بھی زیادہ کے خواہش مند ہیں۔ نور جہاں نے اپنی شہرت کی خاطر مملکت کے ہر حصے میں قیمتی سرائے تعمیر کرائے ہیں۔ جہاں کے تاجروں کے قیام و طعام کا بندوبست ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس نے خوبصورت باغات اور محلات بھی بنوائے ہیں۔

جہاں تک بادشاہ کاتعلق ہے۔ اسے انتظامِ سلطنت سے اب کوئی تعلق نہیں رہ گیا ہے اگر کوئی شخص بادشاہ کے دربار میں بازیابی چاہتا ہے تو بادشاہ اس کی بات تو غور سے سنتا ہے مگر اس کا جواب نہ تو ہاں میں دیتا ہے اور نہ ہی نہ میں بلکہ اسے آصف خاں کے حوالہ کر دیتا ہے کہ وہ اس کا معاملہ طے کرے۔

آصف خاں کا بھی دستور ہے کہ وہ بات کو سن کر کوئی جواب نہیں دیتا ہے بلکہ اس سلسلہ میں اپنی بہن سے مشورہ کرتاہے۔ جو اس معاملہ کو اس طرح سے سلجھاتی ہے کہ جس سے معاملہ بھی طے ہو جاتا ہے اور بادشاہ و آصف خان کی اتھارٹی بھی متاثر نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے جس کا بھی کام ہو جاتا ہے وہ بادشاہ کے بجائے ان دونوں کا شکر گزار ہوتا ہے۔ بادشاہ کو صرف ایک ہی کام سے دلچسپی ہے اور اس تلاش میں رہتا ہے کہ شکار کہاں پر اچھا ملتا ہے۔

شکار بادشاہ کی زبردست کمزوری ہے اور اس شغل سے وہ بے انتہا خوش ہوتا ہے۔ شکار کو وہ یا تو پچھلے پہر کو جاتا ہے کہ جب سورج کی حدت کم ہو جاتی ہے یا پھر جب اس کی آنکھ کھل جائے۔ وہ فوراً لباس تبدیل کرتا ہے اور گھوڑے یا ہاتھی پر سواری کرتے ہوئے شکار کے لئے روانہ ہو جاتا ہے۔ اس وقت اسے اس کی کچھ پرواہ نہیں ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ کتنے ملازم ہیں یا کوئی ہے بھی یا نہیں۔ نہ ہی اسے موسم کے بارے میں فکر ہوتی ہے کہ بارش ہے یا آندھی، وہ شکار سے اس وقت تک واپس نہیں آتا ہے کہ جب تک اس کے باز اور چیتے کوئی شکار نہ پکڑ لیں۔ چیتے یا تیندوے کے ذریعے شکار کھیلنا ہندوستان کا ایک شاندار طریقہ ہے۔ ان جانوروں کو اس قدر سدھا لیا جاتا ہے کہ وہ بلیوں کی طرح انسانوں کے عادی ہو جاتے ہیں۔ ان کی بڑی عمدگی سے دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ جس کے لئے ہر جانور کے لئے دو ملازم مقررہوتے ہیں۔

وہ اس کی اس گاڑی کی بھی دیکھ بھال کرتے ہیں کہ جن میں بٹھا کر انہیں شکار کے لئے لایا جاتا ہے۔ جب وہ ایسی جگہ پر آتے ہیں کہ جہاں ہرنی، پتل، یا سانبھر ہوتے ہیں۔ تو ان کا نگراں انہیں گاڑی سے اتار کر اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ جہاں شکار ہوتا ہے۔ وہ خاموشی سے جھاڑیوں اور درختوں کی آڑ میں چھپتا ہوا اپنے شکار کی طرف بڑھتا ہے اور جب اسے یقین ہو جاتا ہے کہ وہ ایک ہی چھلانگ میں اپنے شکار کو پکڑ لے گا تو اس وقت وہ حملہ کرتا ہے۔

یہ چیتے اس قدر تربیت یافتہ ہوتے ہیں کہ یہ کم ہی اپنے شکار کو چھوڑتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ بادشاہ ہرن یا سانبھر کو ان ہی کے ذریعہ شکار کرتا ہے۔ اس صورت میں ان جانوروں کو اس طرح سے تربیت دی جاتی ہے کہ جب بھی ان کا نگراں انہیں آواز دے کر بلاتا ہے ۔ وہ فوراً اس پر واپس آ جاتے ہیں۔ جب ان کے ذریعہ شکار کرنا ہو تو ان کے سینگوں میں پھندا ڈال دیا جاتا ہے۔ جب وہ کسی جنگلی ہرن یا سانبھر کو دیکھتا ہے تو اس سے لڑنے کے لئے اپنے سینگوں کو اس کے سینگوں میں پھنساتا ہے، وہ اس طرح آپس میں لڑتے ہیں یہاں تک کہ اس کے سینگوں کا پھندا جنگلی ہرن یا سانبھر کے سینگوں کو پھنسا لیتا ہے۔

اب جنگلی جانور کے لئے یہ ممکن نہیں ہوتا ہے کہ وہ بھاگ سکے، اس لئے جو لوگ جھاڑیوں میں چھپے یہ تماشہ دیکھتے ہوتے ہیں۔ وہ آتے ہیں۔ اور آرام سے اسے زندہ پکڑ لیتے ہیں۔ اس قسم کے شکار کے طریقوں سے یہ لوگ بے انتہا لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ جنگلی ہرن یا سانبھر اس آسانی سے قابو میں نہیں آتا ہے اور وہ خود کو بچانے اور بھاگنے کی غرض سے اس شدت سے لڑتا ہے کہ گر کر مر جاتا ہے۔

جب بادشاہ جوان تھا تو اس وقت وہ شوٹنگ کو شکار کے دوسرے طریقوں پر ترجیح دیتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا نشانہ بہت اچھا ہے ان جنگلوں میں کہ جہاں سور، شیر، چیتے اور دوسرے خطرناک جانور ہوتے تھے۔

جب بادشاہ کو ان کے بارے میں بتایا جاتا تھا تو وہ فوراً وہاں جاتا اور ان کا شکار کرتا تھا۔ شیر اور چیتوں کے شکار کی ممانعت ہے۔ کوئی شخص صرف اسی وقت ان کا شکار کر سکتا ہے کہ جب وہ خصوصی طور سے بادشاہ سے اس کی اجازت لے۔

اس موقع پر مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔ ایک مرتبہ بادشاہ شکار کے لئے آگرہ کے قریب ایک مقام پر گیا ہوا تھا کیونکہ اس نے ایک شیر کے بارے میں سنا تھا کہ جو لوگوں پر حملے کر کے انہیں مار ڈالتا تھا جس کی وجہ سے اس علاقہ میں کافی خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا۔ اس موقع پر حکم یہ تھا کہ کوئی بھی شیر کو چاہے وہ اس پر حملہ کیوں نہ کرے، خنجر کے علاوہ کسی اور ہتھیار سے نہیں مارے۔

بادشاہ خود اپنے عملہ کے درمیان بندوق لئے ہوئے تھا جب کہ امراء اور دوسرے لوگ ہانکے کے لئے بکھرے ہوئے تھے۔ اس موقع پر ہوا یہ کہ شیر نے اچانک ایک جھاڑی سے چھلانگ لگائی اور بادشاہ پر حملہ کر دیا۔ اس وقت اس کے ایک ہندو مصاحب نے کہ جس کا نام انی رائے تھا، یہ دیکھتے ہوئے کہ بادشاہ کی زندگی خطرے میں ہے اور وہ اس قابل نہیں ہے کہ اپنی بندوق استعمال کر سکے۔ وہ آگے بڑھا اور شیر کو گردن سے پکڑ لیا اور بادشاہ کو چھڑانے کے لئے خود اس سے الجھ پڑا۔ اس مقابلہ میں شیر نے اس کے بازو اور ٹانگوں کا گوشت نوچ لیا، اگرچہ بادشاہ نے شیر پر تلوار سے کئی مرتبہ وار کئے مگر اس نے انی رائے کو نہیں چھوڑا ۔

آخر کار دوسرے لوگ ہنگامہ و شوروغل سن کر ادھر آئے اور انی رائے کو شیر سے چھڑایا۔ بادشاہ نے اس کے علاج کی طرف خصوصی توجہ دی اور اس کے صحت یاب ہونے پر اسے 500 سواروں کا منصب دار مقرر کیا۔ اس نے اپنی بہادری کی وجہ سے ترقی کی اور اس وقت وہ 3000 سواروں کا منصب دار ہے۔ اگرچہ اس قسم کے واقعات دوسرے ملکوں میں بھی ہوتے ہیں۔ مگر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ جو محبت اور عقیدت یہاں کے ملازمین میں ہے وہ شاید اور کہیں نہ ہو کہ وہ اپنے مالک اور آقا کے لئے اپنی جان قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ لیکن یہ باتیں ہمارے موضوع سے غیر متعلق ہیں۔ اس لئے اب میں اپنی بات پر واپس آتا ہوں۔

پھر بادشاہ جب شکار سے واپس آتا ہے تو وہ غسل خانہ (جہاں بادشاہ خاص خاص امراء سے ملتا تھا) میں آکر بیٹھتا ہے کہ جہاں تمام امراء اس کے سامنے آکر حاضری دیتے ہیں۔ یہاں پر ان لوگوں کو بھی شرف بازیابی ملتا ہے کہ جو بادشاہ سے ملنے کی خصوصی درخواست کرتے ہیں۔

.

وہ یہاں پر ایک پہر رات یا جب تک اس کی مرضی ہو رہتا ہے۔ اس دوران میں وہ شراب کے تین پیالے پیتا ہے۔ شراب پینے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ایک کے بعد ایک تین بار تھوڑے تھوڑے وقفے سے اس سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ شراب نوشی کے دوران جو بھی محفل میں حاضر ہوتا ہے وہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے شراب نوشی کو بادشاہ کی صحت کے لئے ضروری سمجھتا ہے۔

اسی طرح جیسے ہمارے ملک میں کہا جاتا ہے کہ بادشاہ کی شراب نوشی میں رحمت ہے۔ جب بادشاه آخری پیالہ پی کر سو جاتا ہے تو اس وقت تمام حاضرین بھی رخصت ہو جاتے ہیں۔ امراء کے جانے کے بعد ملکہ معہ کنیزوں کے آتی ہے اور اس کے کپڑے تبدیل کراتی ہے۔ یہ تین پیالے اس کو اس قدر مدہوش اور مسرور کر دیتے ہیں کہ وہ اس کے بعد جاگنے کے بجائے سونا پسند کرتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ جب اس کی ملکہ اس سے جو چاہتی ہے وہ منظور کرا لیتی ہے کیونکہ بادشاہ اس پوزیشن میں نہیں ہوتا ہے کہ وہ اس کی بات سے انکار کرے۔

بادشاہ کے تمام علاقوں، شہروں اور گاؤں وغیرہ کی سالانہ آمدنی کا حساب ایک رجسٹر میں لکھا جاتا ہے جو کہ دیوان کے چارج میں ہوتا ہے۔ اس وقت موجودہ دیوان ابوالحسن ہے تمام شہزادوں، منصب داروں، اور امیروں کو ان کی حیثیت کے مطابق جاگیریں دی جاتی ہیں کہ جس کی آمدن سے وہ اپنا خرچہ پورا کرتے ہیں۔ ان میں کچھ امراء بادشاہ کے دربار میں رہتے ہیں اور اپنی جاگیر کا انتظام اپنے کسی معتمد کے حوالے کر دیتے ہیں یا وہ کسانوں یا کروڑی کو دے دیتے ہیں۔ کہ جو اچھی یا خراب فصل پر نفع و نقصان کے ذمہ دار ہوتے ہیں لیکن صوبے اس قدر غریب ہیں کہ ایک جاگیر جس کی آمدن 50000 تصور کر لی جاتی ہے، وہ در حقیقت 25000 مشکل سے وصول کرتی ہے اور یہ بھی اس صورت میں کہ غریب کسانوں کو بالکل نچوڑ لیا جاتاہے اور ان کے کھانے کو خشک روٹی مشکل سے بچتی ہے کہ جس سے وہ اپنا پیٹ بھر سکیں۔

یہی وجہ ہے کہ جن منصب داروں کو 5000 سوار رکھنا چاہئیں وہ مشکل سے1000 سوار رکھ سکتے ہیں لیکن وہ اپنی شان و شوکت اور رعب داب کے لئے ہاتھی گھوڑے اور ملازمین کی ایک تعداد رکھتے ہیں تاکہ وہ عام آدمی کے بجائے بارعب امیر لگیں اور جب ان کی سواری نکلے تو ان کے ملازمین بلند آواز میں لوگوں کو سامنے سے ہٹاتے رہیں۔ ایسے موقعوں پر جو لوگ راستے سے نہیں ہٹتے ہیں۔ انہیں ملازم بلا کسی لحاظ کے مارتے پیٹتے ہیں۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ ان امراء کی لالچ اور طمع کی کوئی انتہا نہیں ہے ہر وقت ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ دولت جمع کریں۔ چاہے اس میں انہیں لوگوں پر ظلم و ستم کرنا پڑے یا نا انصافی سے کام لینا پڑے۔

دستور یہ ہے کہ جیسے ہی کوئی امیر مرتا ہے تو دیکھے بغیر کہ وہ معمولی امیر تھا یا مقرب خاص، بادشاہ کے آدمی فوراً اس کے محل میں جاتے ہیں اور اس کے مال و اسباب و سازوسامان کی ایک فہرست تیار کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ خواتین کے زیورات اور ان کے ملبوسات کو بھی نہیں چھوڑا جاتا ہےبشرطیکہ انہیں چھپا کر نہیں رکھا جائے۔ امیر کے مرنے پر بادشاہ اس کی جاگیر کو واپس لے لیتا ہے، اس صورت میں عورتوں اور بچوں کو گزارے کے لئے معقول رقم دےدی جاتی ہے۔ بس اس سے زیادہ نہیں۔

اس کا امکان کم ہوتا ہے کہ بچے اور خاندان والے امیر کی زندگی میں اس کی دولت کا کچھ حصہ چھپا دیں تاکہ وہ بعد میں ان کے کام آئے۔ یہ اس لئے مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہر امیر کی جائداد اس کی آمدن اور اس کی دولت کے بارے میں اس کے دیوان کو پورا پورا پتہ ہوتا ہے کیونکہ وہی اس کی آمدن کا حساب کتاب رکھتا ہے اور اسی کے ہاتھوں تمام کاروبار چلتا ہے۔

دیوان کے ماتحت کئی لوگ ہوتے ہیں کیونکہ یہاں یہ دستور ہے کہ جو کام ایک آدمی کر سکے۔ اس کے لئے دس ملازم رکھے جائیں۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس ایک خاص کام ہوتا ہے اور اب یہ اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ امیر کے مرنے کے بعد وہ اس کا حساب کتاب دے۔ اگر ضرورت پڑے تو متوفی امیر کے عملہ کو گرفتار کر لیا جاتا ہے اور ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ حساب کتاب کے تمام کاغذات پیش کریں اور یہ بتائیں کہ ان کے آقا کی آمدنی و اخراجات کیا تھے۔

اگر وہ کچھ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو اس وقت تک اذیت دی جاتی ہے کہ جب تک وہ سب کچھ بتا نہ دے ۔

ان کے ساتھ نا انصافی نہیں کریں تاکہ عوام کو ان سے کوئی خوف نہ ہو لیکن جب بھی میں یہ دلائل پیش کرتا ہوں تو وہ یہ کہہ کر بحث کا خاتمہ کر دیتے ہیں کہ یہ ان کے ملک کا رواج ہے۔

بادشاہ اور خصوصیت سے ملکہ کا یہ دستور ہے کہ وہ اس سپاہی کو بہت جلد ترقی دے کر اعلیٰ منصب پر فائز کر دیتے ہیں۔ چاہے اس کا رتبہ کتنا کم کیوں نہ ہو۔ بشرطیکہ اس نے وفاداری اور جرات کے ساتھ ان کی خدمت کی ہو اور میدان جنگ میں نمایاں کارنامے کئے ہوں۔ دوسری طرف کسی کی ذرا سی غلطی یا بھول چوک اسے آن واحد میں اوپر سے نیچے گرا دیتی ہے اور وہ شخص یا تو اپنی دولت و مرتبہ سب کھو دیتا ہے یا اسے پھانسی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ اس لئے اس مملکت میں ہر چیز غیر یقینی کیفیت میں ہے دولت، مرتبہ ، محبت دوستی، اور اعتماد ہر چیز ایک نازک دھاگے سے اٹکی ہوئی ہے۔ کوئی چیز مستقل نہیں ہے، یہاں تک کہ شاندار عمارتیں بھی۔

باغات، مقبرے اور محلات جو ہر شہر کے اندر یا قرب و جوار میں واقع ہیں، ان کے بارے میں سوچتے ہوئے انسان غم و اندوہ کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے کیونکہ یہ ویران و خستگی کی حالت میں کھڑے ایک المیہ نظر آتے ہیں۔ ان کو جب تعمیر کیا جاتا ہے تو ان پر ہزاروں اور لاکھوں کا خرچہ ہوتا ہے، ان کی مرمت اس وقت تک کی جاتی ہے کہ جب تک اس کے مالک زندہ رہتے ہیں اور ان کے پاس اتنی دولت ہوتی ہے کہ وہ ان کی دیکھ بھال کر سکیں لیکن جیسے ہی مالک کی وفات ہوتی ہے، پھر ان عمارتوں کی جانب کسی کی توجہ نہیں رہتی ہے۔ بیٹا اپنے باپ کے کام کو نظر انداز کرتا ہے۔ ماں بیٹے کے‘ بھائی اور دوست دوسرے کی عمارتوں کی کوئی دیکھ بھال نہیں کرتے ہیں۔

ہر ایک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے لئے کوئی نئی عمارت تعمیر کرائے اور اپنے آباؤ اجداد کی روش پر چلتے ہوئے علیحٰدہ سے اپنی شہرت اور نام کو بڑھائے۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ایک صدی تک ان عمارتوں کی مرمت کی جائے، ان کی دیکھ بھال کی جائے تو ہر شہر اور ہر گاؤں میں شاندار عمارتیں نظر آئیں۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ آپ جب سفر کریں تو آپ کو شاہراہوں پر اور شہروں سے باہر ٹوٹی عمارتوں کے ڈھانچہ اور ان کا گرا ہوا ملبہ اور اس کے ڈھیر جگہ جگہ نظر آئیں گے۔

جہاں تک اس ملک میں قانون کا تعلق ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں کوئی قانون نہیں ہے۔ انتظامِ سلطنت میں مطلق العنانیت ہے لیکن قانونی کتابیں ضرور ہیں کہ جو قاضی کے پاس ہوتی ہیں۔ ان قوانین کے تحت سزاؤں میں ہاتھ کے بدلے ہاتھ اور آنکھ کے بدلے آنکھ لینے پر عمل ہوتا ہے لیکن جیسا ہمارے ہاں ہے وہ کون ہے جو پوپ کو عیسائیت سے نکالے؟ اس طرح یہاں کسی کی مجال نہیں کہ وہ صوبہ کے عامل سے یہ سوال پوچھ سکے کہ تم ہم پر اس طرح کیوں حکومت کرتے ہو؟ جبکہ ہمارا قانون تو یہ مطالبہ کرتا ہے۔”

انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ہر شہر میں کچہری یا عدالت لگتی ہے کہ جہاں عامل، دیوان، منشی، کوتوال اور قاضی یہ سب موجود ہوتے ہیں۔ یہ اجلاس یا تو روز ہوتے ہیں یا ہفتہ میں چار روز۔ یہاں پر تمام مقدموں کا فیصلہ کیا جاتا ہے لیکن ان فیصلوں کو اپنے حق میں کرانے کے لئے رشوت سے کام لینا پڑتا ہے۔

قتل، چوری وغیرہ کے مقدمات کا فیصلہ گورنر یا عامل خود کرتا ہے اگر مجرم غریب ہوں اور رشوت دینے کے قابل نہ ہوں تو انہیں بھنگی فوراً عدالت سے باہر گھسیٹ کر لے جاتے ہیں۔ اور بغیر کسی تکلیف کے انہیں پھانسی دےدی جاتی ہے اگر وہ دولت مند ہوں تو ایسے لوگوں کے لئے سزائے موت پر عمل درآمد نہیں ہوتا ہے۔ اس جرم کی سزا کے طور پر ان کی جائداد کو ضبط کر کے گورنر یا کوتوال کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔

عام قسم کے مقدمات جیسے خاندانی لڑائی جھگڑے، طلاق اور دھمکیوں وغیرہ کو کوتوال یا قاضی نمٹا دیتے ہیں۔ مجھے ایسے شخص پر ترس آتا ہے کہ جو اِن بے دینوں اور انصاف سے دور منصفوں کے سامنے انصاف کی غرض سے پیش ہوتا ہے کیونکہ ان کی آنکھوں میں دولت کی لالچ چمکتی نظر آتی ہے۔ ان کے سینہ دولت کی ہوس کے لئے بھیڑیوں کی طرح کھلے ہوتے ہیں اور ان کے پیٹ غریبوں کی روٹی کھانے کے لئے بھوک سے بے چین رہتے ہیں۔ عدالت میں ہر شخص ہاتھ پھیلائے مانگنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے۔ کسی پر اس وقت تک نہ تو رحم کیا جاتا ہے اور نہ ترس کھایا جاتا ہے کہ جب تک وہ شخص رشوت نہ دیدے۔ اس سلسلہ میں ججوں اور عہدے داروں کو ہی قصور وار ٹھہرانا مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ وباء پلیگ کی طرح ہر طرف پھیلی ہوئی ہے ۔چھوٹے سے لے کر بڑے تک یہاں تک کہ بادشاہ بھی اس میں ملوث ہے۔

ہر شخص دولت کی ہوس میں اس قدر گرفتار ہے کہ اس کی خواہش کبھی پوری ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ اس لئے اگر کسی شخص کو عامل سے یا سرکار میں کچھ کام ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ رشوت کے لئے پیسوں کا بندوبست کرے۔ بغیر تحفہ تحائف کے اس کی درخواست پر عمل درآمد ہونا ناممکن ہے۔ ہمارے عزت مآب لوگوں کو اس پر حیران نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ اس ملک کا رواج ہے۔

بادشاہ کے فرمان جو وہ شہزادوں اور امراء کو لکھتا ہے وہ ان تک تیز رفتاری کے ساتھ پہنچا دئیے جاتے ہیں۔ اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ڈاکیا یا قاصد جو کہ دوڑ میں ماہر ہوتے ہیں وہ ہر گاؤں میں چار یا پانچ کوس کے فاصلہ پر متعین ہوتے ہیں۔ یہ ان کے فرائض میں سے ہے کہ وہ دن اور رات ہر وقت اپنے کام کے لئے تیار رہیں۔ اس لئے جیسے ہی کوئی ڈاکیا بھاگتا ہوا خط لے کر ان کی پوسٹ پر آتا ہے۔ وہ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اسے لے کر دوسری پوسٹ کی طرف دوڑ لگاتے ہیں۔ اس طرح فرمان و شاہی احکامات و خطوط دن رات میں 80 کوس کا فاصلہ طے کرتے ہیں اور اس تیز رفتاری کے ساتھ منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ ملک کے ہر حصہ میں بادشاہ کی جانب سے تربیت یافتہ کبوتر ہوتے ہیں کہ جو کسی بحران یا ضرورت کے وقت پیغامات لے کر جاتے ہیں۔ یہ ہمارے ہاں بھی ہوتا ہے۔ خاص طور سے محاصرہ کی صورت میں لیکن صرف تھوڑے فاصلے کے لئے لیکن موجودہ بادشاہ ان کبوتروں کو دور دراز کے علاقوں کے لئے بھی استعمال کرتا ہے۔

موجودہ بادشاہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کا مالک ہے۔ لمبائی میں یہ سورت سے کشمیر تک 1100 کوس ہے، وہاں تک پہنچنے کے لئے جو چوکیاں ہیں وہ یہ ہیں:

سورت سے برہانپور 150 کوس ، آگرہ 350 کوس ، آگرہ سے لاہور 300 کوس‘ لاہور سے کشمیر 300 کوس۔ اگر احمد آباد سے جایا جائے تو 50 کوس کم ہو جائیں گے اگر شمال مغربی علاقے میں جایا جائے تو لاہور سے ملتان ہوتے ہوئے قندھار کا فاصلہ 600 کوس ہے۔ مشرق میں اگر جایا جائے تو آگرہ سے 1000 کوس کا فاصلہ ہے۔ جو بنگال اور اوڑیسہ تک جاتا ہے۔ مغرب میں کابل ہے جو کہ لاہور سے 300 کوس ہے۔ جنوب مغرب میں ٹھٹھہ، سندھ اور بھکر ہیں۔

اگر ان تمام علاقوں سے منصفانہ طور پر لگان لیا جائے تو اس سے جہانگیر کو اس قدر آمدنی ہو سکتی ہے کہ وہ اس کی مدد سے تمام ہمسایہ ملکوں کو فتح کر سکتا ہے لیکن بہرحال ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ وہ میدانی علاقوں اور کھلی شاہراہوں کا بادشاہ ہے کیونکہ بہت سے ایسے علاقے ہیں کہ جہاں بغیر حفاظتی دستے کے سفر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ پھر اس علاقے کے باغیوں کو حفاظت سے گزرنے کے لئے بھاری رقم دینی پڑتی ہے۔

اس ملک کے علاقے پہاڑوں کی وجہ سے ایک دوسرے سے کٹ گئے ہیں۔ اس لئے جو لوگ ان پہاڑوں کی دوسری طرف رہتے ہیں یا ان کی وادیوں میں، انہیں نہ تو کسی بادشاہ کا پتہ ہے اور نہ ہی وہ جہانگیر کو جانتے ہیں کہ وہ کون ہے؟ وہ صرف اپنے راجہ کو حکمران تسلیم کرتے ہیں اور ایسے راجاؤں کی تعداد بہت ہے اور اس طرح یہ ملک ان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہے۔ اس لئے جہانگیر کہ جس کے معنی پورے عالم پر حکمراں کے ہیں، پورے ہندوستان پر حکومت نہیں کرتا ہے اور اس کی حکومت کے باہر بہت چھوٹے حکمراں یا اس کی حکومت کے باغی ہیں۔

مثلاً سورت کی مثال لیجئے، یہاں پر راجہ پیپل نے ایک مرتبہ حملہ کیا اور شہر میں گھس کر اس نے نہ صرف لوٹ مار کی بلکہ قتل و غارت گری سے بھی باز نہیں آیا اور قریبی گاؤں کو آگ لگا کر تباہی پھیلا دی۔ اس طرح سے الٰہ آباد برہانپور، آگرہ، دہلی، لاہور، اور دوسرے کئی مشہور شہروں میں چور، ڈاکو، اورلوٹیرے دن یا رات کسی بھی وقت آکر لوٹ مار کرتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر چوروں و ڈاکوؤں کی جانب سے گورنر کو رشوت دے دی جاتی ہے کہ وہ تماشائی رہے اور انہیں کچھ نہیں کہے—–

حکومت کے عملہ کے لئے دولت کی لالچ اس قدر حاوی ہے کہ وہ اپنی عزت و نام کا بھی کچھ خیال نہیں کرتے اور ہر حیلے بہانے اور ناجائز طریقے سے دولت اکٹھی کر کے اپنے محلات تعمیر کراتے ہیں۔ ان میں خوبصورت عورتوں کو جمع کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے گھروں کو عیاشی کا ایسا نمونہ بناتے ہیں کہ شاید دنیا بھر میں ان کی مثال نہ ہو۔ اب میں ان امراء کے بارے میں اور ساتھ میں عام غریب لوگوں کے بارے میں بیان کروں گا کہ ان کی زندگی اس ملک میں کیسی ہے۔

______________________________

 


Leave a Comment